قاتل حملہ آور کیوں مارا گیا؟
Reading Time: 2 minutesکراچی میں عیدالاضحی کی نماز کے بعد اظہارالحسن پر قاتلانہ حملے میں دو افراد کو شہید کرنے والے حملہ آور کی شناخت ہو گئی ہے۔ پولیس کے مطابق چار میں ایک حملہ آور جو مارا گیا اس کی شاخت حسان کے نام سے ہوئی ہے اور وہ سہراب گوٹھ کا رہائشی تھا۔ پولیس اور خفیہ اداروں نے اس کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کے والد اور رشتہ داروں کو گرفتار کیا ہے۔ ان گرفتاریوں کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے مارے جانے والے حسان کے ساتھیوں کی تلاش شروع کی تو گلزارہجری میں چھاپہ مارا جہاں سے ایک اور ملزم کے والد کو گرفتار کیا۔ پولیس کا دعوی ہے جس گھر پر چھاپہ مارا وہ مارے گئے ملزم کے ساتھی مفرور ملزم عبدالکریم سروش صدیقی کا ہے جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپلائیڈ فزکس میں کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کے والد نے کہا کہ حملہ انصارالشریعہ کے دہشت گردوں نے کیا۔ جس کے بعد تنظیم کے ترجمان کو ڈیفنس کے علاقے سے گرفتار کیا۔
پولیس اور خفیہ اداروں کے کارروائی اورتیزی نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے مگر دوسری جانب پریشانی کی بات یہ نظر آئی کہ مارے جانے والے حملہ آور کو شہریوں نے مارپیٹ کے بعد زخمی حالت میں پولیس کے حوالے کیا تھا جسے بعدازاں سر میں گولی مار کر پولیس نے قتل کیا اور اسے پولیس مقابلے کا رنگ دیا۔ پولیس کی جانب سے اہم شواہد ضائع کرنے اور گرفتار حملہ آور کو قتل کرنے کی وجہ سے حملہ آوروں کے پیچھے چھپے عناصر تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا۔ کراچی میں پولیس مقابلوں اور دہشت گرد عناصر کی کارروائیوں پرنظر رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ ایس ایس پی راﺅ انوار پہلے دن سے ہی ایک مشکوک کردار ہے اور وہ عدالتوں میں ملزمان کو پیش کرنے کی بجائے جن لوگوں کیلئے کام کرتاہے ان کے احکامات پرعمل کرتے ہوئے مقابلے میں مارتا ہے۔