پاکستان کی عدلیہ یا غلاظت کا بدبودار جوہڑ
Reading Time: 8 minutesمقابلے کا امتحان دے کر پولیس آفیسر لگنے والے جنید ارشد کی شادی سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید زاہد حسین کی بیٹی سیدہ عائشہ سبحانی سے ہوئی۔ جنید ارشد کے والد ایس ایس پی ریٹائرڈ ہیں۔ دادا بھی پولیس آفیسر تھے۔ اس جوڑے کے ہاں اولاد ہوئی۔ روایتی میاں بیوی اور فیملی کی طرح یہاں بھی کچھ ان بن رہتی تھی۔ جنید ارشد کے بقول بیوی نے شوہر کیخلاف وفاقی خاتون محتسب کو کام کی جگہ پر ہراساں کئے جانے کے قانون کے تحت درخواست دے دی۔
خاتون محتسب کشمالہ طارق تھیں۔ وہ بھی وکیل رہی ہیں اور جنید ارشد کے بقول جسٹس صاحب کی چیمبر فیلو رہ چکی ہیں۔
جیورسڈکشن یا درخواست قابل سماعت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے یکطرفہ طور پر جنید ارشد کو ڈسمس فرام سروس کا آرڈر جاری کر دیا۔ ساتھ ہی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ڈائریکشن بھی دے دی کہ 15 دن میں فیصلے پر عمل کروا کر رپورٹ پیش کرو۔
قانون کے مطابق کسی بھی شخص کےخلاف کیس ہو تو اسے نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ یکطرفہ کارروائی ہو بھی تو ملزم فریق اگر آ کر کہے کہ اسے کبھی نوٹس نہیں ملا۔ اسے بھی سن کر فیصلہ کیا جائے۔ تو اسے کچھ مارجن دیا جاتا ہے۔ قانون میں باقاعدہ یکطرفہ پروسیڈںگز اور آرڈرز کو ختم کرنے کی شقیں موجود ہیں جن پر عمل ہوتا ہے۔ خیر۔ جنید ارشد کہتے ہیں خاتون محتسب کشمالہ طارق نے یہ فیصلہ تو دیا لیکن اس کا ایک اور حیران کن حصہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو یہ ہدایت تھی کہ فیصلے پر 15 دن میں عمل کروا کر رپورٹ کرو۔ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس کے قانون کے تحت محتسب کے فیصلے کیخلاف متاثرہ پارٹی کو صدر مملکت کو اپیل کرنے کیلئے 30 دن کا ٹائم دیا گیا ہے۔ عام طور پر اپیل کا وقت گزرنے کے بعد فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ تب تک انتظار کیا جاتا ہے کہ اگر متاثرہ فریق نے فیصلے کیخلاف اپیل وغیرہ دائر کرنی ہے تو کر لے۔ لیکن اس کیس میں 15 دن میں رپورٹ طلب کی گئی کہ فوری عملدرآمد ہو۔
جنید ارشد نے فیصلے کیخلاف صدر مملکت عارف علوی کے پاس اپیل فائل کی۔ صدر علوی اور جسٹس زاہد حیسن (ریٹائرڈ) کا اچھا تعلق ہے۔ کہ اس اپیل کے فیصلے کے کچھ عرصہ بعد صدر صاحب نے جسٹس صاحب کو اپنا قانونی معاملات میں مشیر بھی مقرر کیا۔ اور جسٹس صاحب آج بھی ایوان صدر کے ڈائریکٹر جنرل لا مقرر ہیں۔
جسٹس صاحب کی بیٹی نے اس دوران اپنے شوہر جنید ارشد کیخلاف ایف آئی اے اور نیب میں بھی درخواست دے رکھی تھی۔ ان کے ادھر سے بھی وارنٹ نکلے ہوئے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ضمانت منظور کرائے بغیر وہ صدر صاحب کے پاس پیش ہوئے تو گرفتار ہو جائیں گے اور قانون انہیں اجازت دیتا ہے کہ وہ وکیل کے ذریعے اپنا کیس لڑیں۔ انہوں نے وکیل کے ذریعے صدر صاحب کے سامنے اپنی اپیل فائل کی ہوئی تھی۔ تاہم صدر صاحب نے کہا کہ جنید ارشد خود پیش ہو گا تو اسے سنا جائے گا ورنہ اپیل خارج کر دی جائے گی۔ اور یوں صدر عارف علوی صاحب نے اپیل خارج کر دی جنید ارشد کی سزا بحال رکھی۔ جنید ارشد نے اس کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں مارچ 2019 میں رٹ پٹیشن دائر کی۔ ساڑھے 4 سال ہو گئے۔ اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ ہی نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ جنید ارشد کی بیوی کے والد اسی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
جنید ارشد کیخلاف ان کی اہلیہ نے دوسرا کیس مارچ 2017 میں ایف آئی میں کیا۔ کہا کہ کسی نامعلوم نمبر سے انہیں میسج آتے ہیں۔ اس کیس میں ایک گواہ بھی سامنے آ گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ جنید ارشد کے کہنے پر اس خاتون کو میسج بھیجا کرتا تھا۔ ایف آئی اے نے اس شکایت پر بھی جنید ارشد کے بقول یکطرفہ انکوائری کی اور ایف آئی آر درج کر دی۔ جنید ارشد نے درخواست ضمانت دائر کی۔ یہ درخواست ضمانت ایف آئی اے کے جج عبدالحق کے پاس لگی۔ انہوں نے ضمانت خارج کر دی۔ جنید ارشد ہائیکورٹ گیا۔ یہ ضمانت جسٹس قاضی محمد امین کے پاس لگی۔ انہوں نے بھی ضمانت خارج کر دی۔ جنید ارشد نے ایک بار پھر نئی گراونڈ پر ایف آئی آے جج کے پاس ضمانت فائل کی۔ یہ ضمانت ایف آئی اے کے جج علی حیدر کے پاس لگی۔ انہوں نے عبوری ضمانت دے دی۔ روٹین میں یہ ہوتا ہے کہ ضمانت کنفرم ہونے کے بعد اس کو کینسل کروانے کے لیے ہائیکورٹ میں آیا جاتا ہے لیکن جسٹس صاحب کی بیٹی نے ایک ام میچور اسٹیج پر ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا دروازہ کھٹھٹایا اور ان کے ہیومن رائٹس سیل میں درخواست دی۔ ثاقب نثار صاحب (لاہور کے جج) نے فوری اس درخواست پر سیشن جج کو تحریری ہدایت بھیجی کہ ایک دن میں اس پر فیصلہ کیا جائے۔ جنید کے بقول ان کے پاس اس آرڈر کی کاپی بھی موجود ہے۔ ان جج صاحب نے ضمانت خارج کر دی اور یوں 15 مارچ 2019 کو جنید ارشد کو گرفتار کر لیا گیا۔ جنید ارشد کے بقول اس دوران کسی گمنام ,,محب وطن شہری,, کی طرف سے ان کیخلاف نیب کو درخواست بھیجی گئی کہ جنید کے 88 کروڑ کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے۔ اس درخواست میں مبینہ اثاثوں کی جو فہرست لگائی گئی وہ وہی تھی جو ان کی اہلیہ ان کیخلاف فیملی کیس میں لگا چکی تھیں۔ اس گمنام ,,محب وطن شہری,, کی درخواست پر نیب فوری حرکت میں آیا اور انہیں نیب کیس میں بھی گرفتار کر لیا گیا اور 76 دن جسمانی ریمانڈ پر رکھا گیا۔ جب ریفرنس بھیجا تو اس میں کہا کہ 88 کروڑ تو نہیں، 11 کروڑ کے اثاثوں کی بابت ضرور شک ہے۔ 3 کروڑ کی پراپرٹی اور 8 کروڑ کی بینک ٹرانزیکشنز ہیں۔ 4 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس نیب کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
ایف آئی اے کیس میں جنید ارشد نے ضمانت بعد ازگرفتاری دائر کی۔ جج تھے ایف آئی اے کے سید امجد شاہ صاحب۔ انہوں نے ضمانت خارج کر دی۔ جنید ارشد ہائیکورٹ آئے۔ اسی دوران جنید ارشد کو جیل میں دل کا دورہ پڑا۔ ان کا بائپاس آپریشن ہوا۔
واضح رہے کہ ایف آئی آر میں جنید ارشد کے بزرگ اور بیمار والد کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ جنید ارشد نے ہائیکورٹ میں ضمانت دائر کی۔ جسٹس صداقت عباسی صاحب۔ انہوں نے بھی ضمانت خارج کر دی۔ جنید ارشد سپریم کورٹ گئے۔ جسٹس طارق مسعود صاحب کے پاس کیس لگا۔
انہوں نے اس پر نوٹس کر کے دوسرے فریق کو طلب کیا۔ طارق مسعود صاحب لاہور کے باہر کے جج تھے۔
چیف جسٹس عطا بندیال (لاہور کے جج) نے یہ کیس ان سے تبدیل کر کے لاہور کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے پاس لگا دیا۔ انہوں نے بھی ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔
جنید ارشد جیل میں ہی قید رہے۔ ان کے بقول ان کیخلاف کیس درج کروانے والی خاتون سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی صاحبزادی نے آج تک بطور مدعی ایف آئی آر ٹرائل کیس میں اپنی گواہی ریکارڈ نہیں کروائی۔ مقدمے میں تاخیر کی بنیاد پر جنید ارشد نے دوبارہ ٹرائل کورٹ میں ضمانت بعد از گرفتاری دائر کی۔ جج تھے ایف آئی اے کے غلام رسول صاحب۔ انہوں نے درخواست خارج کر دی۔ جنید ارشد ہائیکورٹ میں آیا۔ کیس لگا جسٹس اسجد گھرال صاحب کے پاس۔ ان سے چلا گیا جسٹس عالیہ نیلم صاحبہ کے پاس۔ 3 مہینے کیس اپنے پاس رکھنے کے بعد انہوں نے کہا میں نہیں سن سکتی۔ کیس واپس اسجد گھرال صاحب کو بھجوا دیا جائے۔ اور بالآخر رواں سال کی 17 اپریل کو ہائیکورٹ نے جنید ارشد کی ضمانت منظور کر لی۔
جنید ارشد کیخلاف جس جرم کے تحت ایف آئی آر درج ہے اس کی پوری سزا زیادہ سے زیادہ 5 سال قید ہے۔ لیکن جنید ارشد مجرم ثابت ہوئے بغیر ہی تقریبا ساڑھے 4 سال جیل میں گزار چکا ہے۔ ایسا تو سزا یافتہ مجرم کے کیس میں بھی نہیں ہوتا۔ کسی کا جرم ثابت ہو جائے اور اسے 5 سال کی پوری سزا بھی سنائی جائے جو کی عموما ہوتا نہیں کہ جتنی پوری سزا لکھی ہو اس سے کم ہی سنائی جاتی ہے اور وہ بھی عام معافیاں وغیرہ ڈال کر مجرم بہت پہلے جیل سے رہا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کیس میں ایک انڈر ٹرائل پرزنر اپنے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا بھی کاٹ چکا ہے اور ابھی تک اس کے کیس کا فیصلہ نہیں ہوا کہ وہ مجرم ہے بھی یا نہیں۔ اس کی ملازمت گئی۔ اس کی صحت کا نقصان ہوا۔ اس کے والد اور فیملی کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ساری کہانی کا دلچسپ پہلو شاید یہ آخری پیرا گراف ہے۔
ضمانت منظور ہوئی تو جنید ارشد کی اہلیہ نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹھکھٹایا۔ ایک بار پھر جسٹس منصور علی شاہ کے پاس کیس لگایا گیا۔ جنید ارشد کے بقول اسے 7 اگست کو نوٹس ملا کہ 8 اگست کو پیش ہوں۔ کیوں نہ آپ کی ضمانت کینسل کر دی جائے۔ وہ پیش ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں وکیل کرنے کیلئے وقت دیا جائے۔ ان کے بقول جج صاحب نے کہا نہیں، ابھی دلائل دو۔ خیر منت کرنے پر صرف دو دن کا وقت دیا گیا۔ مطلب یہ کہ ضمانت دینے کے کیس تو مہینوں تاخیر کا شکار رہے۔ کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی نہ جلدی لیکن ضمانت کینسل کرنے کے کیس میں اتنی عجلت۔۔۔۔۔ قانون میں اس کے بالکل برعکس لکھا ہوا ہے لیکن اس کیس میں الٹا ہو رہا تھا۔ 21 اگست کی پیشی پر وکلا نے ریکارڈ نہیں ملا کی بنیاد پر پھر مشکل سے صرف 7 دن کی ایک تاریخ لی اور یہ کیس 28 اگست کو سماعت کیلئے مقرر ہوا۔ غالبا ججز کو بہت جلدی تھی کہ مقدمات تاخیر کا شکار نہیں ہونے چاہئیں۔ عدالت کا دروازہ کھٹکٹانے والے کو فوری انصاف دیا جانا چاہئے۔
لیکن برا ہو سوشل میڈیا کا۔ اس تاریخ سے صرف ایک دن پہلے جنید ارشد نے مطیع اللہ جان کو انٹرویو دے دیا۔ مطیع اللہ جان کے یوٹیوب چینل کا یہ انٹرویو ایک ہی دن میں کافی وائرل ہو گیا اور اگلے ہی دن یعنی 28 اگست کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے بالاخر انصاف کا بول بالا کر دیا اور انصاف سب کیلئے ,,برابر,, کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے یہاں تک کے اپنے ایک سابق جج کی بیٹی کی درخواست خارج کر دی۔
اس پورے کیس میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن ججز کے پاس یہ کیس لگا وہ لاہور کے جج تھے۔ دوسرے علاقے کے جج سردار طارق مسعود کے پاس یہ کیس لگا بھی تو لاہور ہائیکورٹ سے ہی گئے ہوئے جج چیف جسٹس عطا بندیال نے اسے تبدیل کر کے لاہور کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے پاس لگا دیا۔
یہ ساری کہانی میں نے جنید ارشد کے 28 اگست کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھنے اور مطیع اللہ جان کو دیے گئے انٹرویو کو سن کر لکھی ہے۔ اس ساری کہانی میں مجھے پولیس آفیسر اور اس کی فیملی مظلوم لگتی ہے۔ دوسری طرف کی کہانی میں کوئی نئے یا مختلف حقائق پتہ چلتے ہیں تو وہ بھی لکھوں گا۔ لیکن چونکہ میں تھوڑا بہت قانون اور اپنی عدالتی پریکٹس کو جانتا ہوں لہذا فی الوقت مجھے یہ ایک پولیس آفیسر کے ساتھ ظلم کی داستان لگتی ہے۔
ہماری عدالتوں میں انصاف کے متلاشی کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا ہے میں اس کا عینی شاہد ہوں۔ میں اکثر کہتا ہوں، چیف صاحبان، جج صاحبان، پہلے اپنے گھر کا گند صاف کر لیں پھر ہسپتالوں کے دورے کرنا۔ اس ملک میں نظام انصاف غلاظت کا بدبودار جوہڑ بن چکا۔
کوئی مہذب ملک ہوتا تو اب تک جنید ارشد کے انٹرویو اور اس میں نام لئے گئے کرداروں کیخلاف انکوائری شروع ہو چکی ہوتی لیکن نہیں۔ میں کسی مہذب ملک کی بات کر رہا ہوں۔ ہم مملکت خداداد، اللہ، رسول کے ایک زندہ معجزے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہیں۔ جس کو کبھی زوال نہیں کی بشارت دی گئی ہے میں رہتے ہیں۔
وما علینا۔
ساڑھے 4 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا۔ جنید ارشد کےخلاف اوپر بیان کردہ نیب اور ایف آئی اے کیس ابھی زیر سماعت ہیں۔ جن کی شاید وہ مقرر کردہ سزا سے زیادہ جیل کاٹ چکا جبکہ ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ وہ مجرم ہے بھی یا نہیں۔ جبکہ جنید کے بقول کیس کی مدعیہ نے ابھی تک عدالت میں اپنی گواہی تک ریکارڈ نہیں کرائی جو کیس کو آگے چلانے کے لیے بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔
جنید ارشد کہتے ہیں اس دوران ملک کے نامی گرامی وکیلوں نے بھی ان کا کیس لڑنے سے انکار کیا۔ احسن بھون، خواجہ حارث، اعظم نذیر تارڑ وغیرہ۔ کہ جج صاحب سے ذاتی تعلقات ہیں۔
اس ساری صورتحال میں مجھے تو جنید ارشد کی شاید یہ بھی خوش قسمتی ہی لگتی ہے۔ ورنہ شاید جسٹس سید زاہد حسین صاحب تو اسے زیادہ سے زیادہ 5 سال قید والے جرم میں بھی پوری عمر ہی قید رکھوانا چاہتے تھے۔
سید صاحب! آپ کا اقبال بلند ہو۔ ہم آپ کے بچوں کے بھی غلام۔
سب کھڑے ہو جائیں۔ آخر میں قومی ترانہ ہو گا۔ پاک سر زمین شاد باد، کشور۔۔۔