ججوں کے کہے اور لکھے میں فرق
Reading Time: 9 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
پاناما فیصلے والے جج نظرثانی درخواستیں سننے کیلئے ساڑھے نو بجے کمرہ عدالت میں نمودار ہوئے۔ عدالت میں معمول کے مطابق ہی وکیل اور صحافی موجود تھے جو ججوں کے بیٹھنے تک احتراما کھڑے ہوگئے۔ رپورٹروں کے نصیب میں کرسیوں پر بیٹھنا اس لیے بھی نہیں ہوتاکہ عدالت میں اگر کرسی خالی مل بھی جائے تو ساﺅنڈ سسٹم سے اکثراوقات ججوں کی آواز اسپیکر سے ہوتی ہوئی ہمارے کانوں تک واضح طور پر نہیں پہنچتی، اس لیے تین گھنٹے کی سماعت ججوں اور وکیل کے درمیان ایک طرف کھڑے ہوکر سننے کے بعد ٹخنے شکایت کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے آج کے دلائل کے آغاز میں گزشتہ روز کے عوامی نمائندگی قانون کی شق چھہتر اے کا دوبارہ حوالہ دیا، اور کہاکہ قانون کے مطابق اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم قراردے کر منتخب رکن کو ڈی سیٹ کیاجاتاہے، اور اس کیلئے بھی ایک باقاعدہ طریقہ کارطے ہے، پہلے شوکاز نوٹس دیاجاتاہے، اسی طرح عوامی نمائندگی کے قانون کی شق کے تحت نااہلی صرف ایک ٹرم کیلئے ہوتی ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق نہیں ہے اور دوسری جانب اس کے تحت سزا بھی سنگین ہے، ممکنہ وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر عوامی نمائندگی کا قانون لاگو کیا جاسکتاتھا، کیونکہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کی نیت معلوم نہ ہوتو پھر حتمی فیصلہ نہیں دیاجاتا مگر عدالت نے باسٹھ ون ایف کے تحت فیصلہ دے کر نیت بھی جانچ لی حالانکہ اس کیلئے انکوائری بھی نہیں کی گئی۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ تنخواہ نہ لینے کی نیت ہم کیسے معلوم کرتے؟ جب معاہدہ نوازشریف کے ایف زیڈ ای کے چیئرمین بورڈ ہونے کا معاہدہ موجودتھا اور عدالت میں تحریری طور پر مان لیاگیا کہ تنخواہ بھی طے تھی تو پھر ہم کیسے اور کیوں کہیں کہ وصول نہیں کی گئی ہوگی۔وکیل نے کہاکہ پہلے دن سے یہ نیت نہیں تھی، بعدازاں بیٹے کو بتایا تھاکہ تنخواہ نہیں لی جائے گی اور یہی بات عدالت کو بتادی تھی، تحریری طور پر بھی بتایا تھاکہ تنخواہ وصول نہیں کی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ عدالت میں جے آئی ٹی کا لایا گیا معاہدہ موجودتھا اور نوازشریف کے تحریری جواب میں بھی لکھا تھاکہ وہ تنخواہ لینے کے اہل تھے، بدقسمتی سے جو آپ زبانی کہہ رہے ہیں وہ تحریری طور پر عدالتکے سامنے نہیں تھا۔باپ بیٹے کے مابین زبانی تنخواہ نہ لینے کی بات عدالت کے علم میں نہیں تھی۔ وکیل نے کہاکہ نوازشریف کے تمام اکاﺅنٹس ظاہر شدہ تھے۔ جسٹس اعجازنے کہاکہ یہ اکاﺅنٹ ظاہرہی نہیں کیاگیاتھا۔ وکیل نے کہاکہ یہ اکاونٹ تھاہی نہیں، جے آئی ٹی کوئی ایسا اکاونٹ سامنے لے کر نہیں آئی، یہ تمام چیزیں ایک باقاعدہ ٹرائل کے ذریعے جانچی جاسکتی تھیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اکاونٹ کا ذکر ہے جس میں تنخواہ گئی۔آپ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم نو دیکھ لیں۔ اسی دوران جسٹس عظمت سعید اس بحث سے اکتاکر بولے کہ جو بات حتمی فیصلے میں ہی نہیں لکھی گئی اس پر دلائل کیوں دیے جائیں؟ اگر ایسا کوئی اکاونٹ تھا تو فیصلے میں لکھا گیاہوتا، اب نظر ثانی میں نئی چیز کیسے لائی جاسکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سمجھ لیاکہ مجھے نشانے پر رکھ لیاگیاہے تو بولے کہ میں تو صرف اکاﺅنٹ نہ ہونے کی دلیل پرنشاندہی کررہاتھا۔ وکیل نے کہاکہ اگر تفصیل اور غور سے دیکھا جائے تو ایسا کوئی اکاونٹ نہیں تھا نوازشریف کے تمام اکاﺅنٹس ظاہر کےے گئے تھے۔جسٹس عظمت نے کہاکہ آپ آگے بڑھیں، تنخواہ وصول نہ کیے جانے کے نکتے پر ہی دلائل دیں۔ وکیل نے کہاکہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین اور رٹ آف کووارنٹو میں ہی اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں، اسی وجہ سے کہتاہوںکہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی نہیں ہونا چاہیے تھی، دوبارہ وضاحت کردوں کہ جے آئی ٹی تنخواہ کا کوئی نیا بنک اکاونٹ نہیں لے کر آئی تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ کیا ہم نے اپنے فیصلے میں ایسی کوئی بات لکھی؟ جب نہیں لکھی تو آگے بڑھیں۔ خواجہ حارث نے آخری بار چوٹ کی کہ جسٹس اعجازالاحسن نے بات کی تھی تو اس کا جواب دیاہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ہرآمدن اثاثہ نہیں بنتی، ثاثہ وہی ہے جو بنک اکاونٹ میں ہے یا ہاتھ میں ہے۔اس کے علاوہ اثاثے کا کوئی تیسرا ذریعہ ہی نہیں۔ جسٹس عظمت کو شرارت سوجھی تو وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ جب کسی کی آمدن حج پر لگ جائے یا وہ دبئی جاکر کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا لے تو وہ خرچ کی گئی رقم تو اثاثہ نہیں رہی نا، کیسے ظاہر ہوسکے گی۔ وکیل خواجہ حارث نے ہنستے ہوئے کہاکہ میری ہربات کو آپ کسی اور طرف لے جاتے ہیں، یہ میرا مقصد نہیں تھا، صرف اثاثے کی تعریف کرنا تھی۔عدالت نے اس سے قبل ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں کیاکہ جس میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کیلئے باسٹھ ون ایف لگایا گیا ہو، یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے۔
خواجہ حارث نے اس کے بعد عدالت کے فیصلے کے اس حصے پر نظرثانی دلائل کا آغاز کیا جس میں نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ مکمل نہیں تھی، کئی ممالک نے ابھی تک خطوط کا جواب نہیں دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں سامنے آجائے گا، وہاں ان تمام غلطیوں یا کمی کی نشاندہی کرکے اپنے دفاع کرسکتے ہیں، وہاں شواہد اور گواہان سمیت ہرچیز کی جانچ ہوگی، ہم نے جے آئی ٹی رپورٹ کو حتمی طورپر تسلیم نہیں کیا۔ کہیںبھی نہیں کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ پرفیکٹ ہے۔ وکیل بولے کہ جب مکمل ہی نہیں تھی تو اس پر فیصلہ نہیں دیاجاسکتاتھا، عدالتی حکم نے تفتیش کو مکمل کہاجبکہ رپورٹ نامکمل تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تو یہ مکمل تصور ہوگی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جسٹس آف پیس بھی بائیس اے کی درخواست پر ایس ایچ اوکو مقدمہ درج کرنے کاحکم دیتاہے اور اس سے کیس متاثر نہیں ہوتا، کیونکہ مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کرنے کے بعد تفتیش کا کام ہوتاہے۔ وکیل نے کہاکہ یہاں ویسا معاملہ نہیں، ٹرائل کورٹ میں جے آئی ٹی پر سوال اٹھاﺅں گا تو وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دکھائیں گے، شفاف ٹرائل کا ہمارا حق تو ختم کردیاگیاہے۔ جسٹس اعجاز نے کہاکہ احتساب عدالت کو فیصلہ کرنے دیں کہ مقدمہ بنتاہے یانہیں۔ وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ریفرنس بنانے اور دائر کرنے کافیصلہ دیاہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ہم میں سے ہرجج اس مسئلے پر اپنی رائے لکھ چکاہے، اگر نیب پہلے مرحلے پر خود کام کرلیتاتو ہمیں نہ لکھنا پڑتا، جب نیب نے کچھ نہیں کرنا تو عدالت کیاکرتی، ہمیں کرنا پڑا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ فیصلے کا پیراگراف نو پڑھ لیں ہم نے لکھاہے کہ بظاہر کیس بنتاہے۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی فیصلوں کی مثالیں دی ہیں کہ ٹرائل کورٹ نے کیس چلانا ہوتو فیصلہ محتاط لکھاجاتاہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو ٹرائل سے پہلے ہی فیصلہ ہوجاتاہے۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ عدالت کے سامنے مواد موجود تھاکہ نیب کچھ نہیں کر رہا، سپریم کورٹ نے کئی مقدمات میں چالان پیش کرنے تک کا فیصلوں میں لکھاہے۔ وکیل نے کہاکہ بالکل لکھاہے مگر اس میں کسی مخصوص مقدمے یا کسی شخص کو ہدف بناکر نہیں لکھاگیا، اگر ہے تو اس مقدمے کا نام بتادیں۔سپریم کورٹ ہمیشہ عمومی نوعیت کی بات کرتی ہے۔فیصلہ میں صرف اگر کا لفظ شامل کرلیاجاتا تو سب کچھ درست تھا، جب عدالت نے لکھ دیاکہ ریفرنس دائر کیا جائے تو معاملہ ہی ختم ہوگیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا ہم ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ چیئرمین نیب پر چھوڑ دیتے جنہوں نے کچھ نہیں کرناتھا۔ وکیل نے کہاکہ اس کے اور بھی طریقے تھے۔ بتایا جائے کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے سپریم کورٹ کا کون سا فیصلہ حتمی ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اٹھائیس جولائی کا فیصلہ بیس اپریل کے فیصلے کا تسلسل ہے۔ وکیل نے کہاکہ حتمی فیصلے سے متعلق وضاحت کی جائے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ دلائل کا یہ نکتہ بھی نوٹ کرلیاہے۔ وکیل نے کہاکہ چھ ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا کہاگیاہے جو کہ ٹرائل کورٹ پر دباﺅ بڑھائے گااور ہمارے حقوق متاثر ہوں گے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ قانون میں تیس دن کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا لکھاہے۔ وکیل نے کہاکہ آج تک اس قانون پر کس مقدمے میں عمل ہواہے؟ دوسال بعد تو آپ کے پاس ضمانت کی درخواست آتی ہے، اسی طرح چھ ہفتے میں تو آپ نے خود ریفرنس فائل کرنے کا کہاہے تو ایک ماہ میں ٹرائل کیسے قانون کے تحت مکمل ہوسکتاہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ایسی کوئی بات نہیں، ٹرائل کیلئے جتنا وقت درکار ہوگا اسی میں ہوگا۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ٹرائل کسی صورت تعصب کا شکار نہیں ہوگا۔ وکیل نے کہاکہ کبھی جج کسی مخصوص کیس کی نگرانی نہیں کرتا، عمومی نگرانی کی جاتی ہے، یہاں غیرمعمولی صورتحال ہے۔جسٹس عظمت اور جسٹس کھوسہ نے کہاکہ غیرمعمولی نہیں، ماتحت عدلیہ کی نگرانی کی جاتی رہی ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلوں میں گائیڈ لائن دی گئی ہیں۔ وکیل نے کہاکہ گائیڈ لائن عمومی نوعیت کی ہیں کسی کیس یا شخص کو ہدف بناکر اس کے مقدمے کی نگرانی نہیں کی جاتی۔سپریم کورٹ کا جج نگرانی نہیں کرسکتا، یہ غیر معمولی ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ یقین رکھیں یہاں بیٹھا کوئی جج گائیڈ لائن سے باہر جاکر ٹرائل میں مداخلت نہیں کرے گا، صرف عمومی نوعیت کی نگرانی ہوگی۔ وکیل نے کہاکہ اس کیس میں سپریم کورٹ خود شکایت کنندہ بن گئی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ چیئرمین نیب کا کچھ پتہ نہیں چلتا، شکایت کنندہ میں خواجہ حارث کا نام ہی نہ لکھ دے۔ عدالت میں بیٹھے لوگ مسکرا تے رہے۔
وکیل نے کہاکہ جب سپریم کورٹ فیصلے میں جے آئی ٹی کے کام کی تعریف کرے تو ہم ٹرائل کورٹ میں اپنا کیا دفاع کریںگے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ نہیں، ایسا نہیں ہوگا، ہم نے آبزرویشن دی ہے۔ وکیل نے کہاکہ شفاف ٹرائل میرا حق ہے، عدالت میرے تحفظات دور کرے۔رپورٹ پر بھی اعتراض کیاتھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ تمام چیزیں ٹرائل کورٹ کے سامنے ر کھیں۔وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے تفتیش کاروں کے کام کو زبردست قرار دیا تو ہمارے اعتراض کون سنے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا چلیں ہم اس کی وضاحت کردیںگے، اب آگے چلیں۔جسٹس اعجازافضل نے کہا ہرشخص بادی النظر کا مطلب سمجھتاہے، ہم نے فیصلے میں یہ لکھا ہے، ٹرائل کورٹ کے جج کو بھی معلوم ہے۔ فیصلے کو مکمل ہی پڑھاجائے گا، کسی حصے کو الگ کرکے نتائج اخذ نہیں کیے جاتے۔وکیل نے کہاکہ یہ عمومی تاثر ہے اس لیے عدالت وضاحت کرے کہ سپریم کورٹ نے کیا حکم دیا۔جسٹس عظمت بولے کہ یہ بھی نوٹ کرلیاہے۔وکیل نے کہاکہ ذاتی طورپر تجویز کرتا ہوں کہ اس بنچ میں بیٹھا ہوا جج ٹرائل کی نگرانی نہ کرے، ٹرائل کورٹ کے جج کو دباﺅ سے آزاد ہونا چاہیے اس کیلئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نگرانی کرنے کا فیصلہ تبدیل کرے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ نوازشریف کا اس عدالت کے سامنے یہ کوئی پہلا کیس نہیں، ماضی میں اسی عدالت نے نوازشریف کو ریلیف بھی دیا اور ان کوریسیکو بھی کیا۔ان کے حقوق کا تحفظ کیاگیا، آئندہ بھی کریں گے۔ عدالت ہرشہری کے حقوق کی محافظ ہے، ایسا کوئی غلط تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ خلاف دے دیا تو اب مزید کوئی ریلیف بھی نہیں مل سکتا۔جسٹس عظمت نے کہاکہ عدالت پر یقین رکھیں، ہم یہاں حقوق کے تحفظ کیلئے بیٹھے ہیں۔ اس مرحلے پر خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوئے اور ججوں نے ان کی بھرپور تعریف کی۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کیاتو جسٹس کھوسہ نے پوچھاکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے وقت آپ وکیل نہیں تھے،وکیل نے کہاکہ بیس اپریل کے فیصلے تک میںہی اسحاق ڈار کاوکیل تھا، جے آئی ٹی رپورٹ عدالت کے سامنے آئی تو ملک سے باہرتھا اس لیے پیش نہ ہوسکا اوردوسرا وکیل کیا گیا۔ (دوسرے الفاظ میں وکیل نے کہاکہ جس طرح دو جج اس مقدمے میں واپس آئے میں بھی اسی طرح آگیا)۔
وکیل شاہد حامد نے کہاکہ اسحاق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں ترمیم کرنے کیلئے حکم دیاجائے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں، ریفرنس دائرہوگیاہے تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ وکیل نے کہاکہ عدالت کو ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ دینے کااختیار ہی نہیں تھا قانون میں اس کی گنجائش نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب نے یہاںآکر کہاتھاکہ کچھ نہیں کریں گے اس لیے حکم دیا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب کچھ نہیں کرتا تو عدالت بھی نہ کرے، کیا نیب کے ساتھ عدلیہ اور ریاست بھی ناکام ہوجاتی؟۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ انصاف اندھا ہوسکتاہے جج نہیں، عدالت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہماری کسی آبزرویشن سے ٹرائل کسی صورت متاثر نہیں ہوگا۔ جسٹس کھوسہ نے جنرل ضیاء کے دور میں چوراہوں پر پھانسیوں کے معاملے کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اس دور میں بھی بنیادی حقوق کا تحفظ کیا اور عدالت کے فیصلے کے تحت ان پھانسیوں پرپابندی لگائی گئی۔ اگر ایک فیصلہ آپ کے خلاف ہوگیا تو اس کایہ مطلب نہیں کہ سب کچھ آپ کے خلاف ہوگا، آپ کے موکل کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ حکومت آپ کی ہے، قانون وآئین تبدیل کردیں گے، ہم تو آئین پر عمل کرانے کیلئے بیٹھے ہیں۔ وکیل نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو کہاکہ اسحاق ڈار کے اثاثے اکیانوے گنا بڑھے اس پر ٹرائل کورٹ میں وضاحت دیں یہاں آپ کا کیس مزید خراب ہوسکتاہے۔ وکیل نے کیس کے حقائق کے حوالے سے بات کی تو جسٹس گلزار نے کہاکہ یہ بحث ٹرائل کورٹ میں کریں، جسٹس عظمت نے کہاکہ یہاں یہ بات کریں گے تو فیصلہ میں آجائے گی جس سے ٹرائل کورٹ میں آپ کے موقف پر اثر پڑے گا اس لیے محتاط رہیں۔ وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں اسحاق ڈار سے متعلق کوئی سفارش نہیں کی گئی جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے نوے لاکھ سے نوسولاکھ بننے والے اثاثوں کا بڑے جارحانہ انداز میں پھر تذکرہ کردیا، بولے کہ اسحاق ڈار کا معاملہ دیگر کے ساتھ جڑا ہواہے اس لیے ان کے اثاثوں کی چھان بین کیلئے ریفرنس دائر کرنے کا کہاگیا۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ کیا اسحاق ڈار نے اپنے اعترافی بیان کو کہیں چیلنج کیا؟۔ وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ میں اسی کیس میں کیاتھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اسحاق ڈار اپنے اثاثوں کی وضاحت کیلئے دبئی کے شیخ سے خط لے آئے، اس کے علاوہ کوئی وضاحت پیش نہ کرسکے۔ وکیل نے کہاکہ جن خطوط کا ذکرکیا جارہاہے اس وقت وہ دبئی میں مشیرتھے اور پاکستان میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت تھی۔
اسحاق ڈار کے وکیل نے کہامقدمے کی سماعت کے دوران اور فیصلے کے بعد بھی اسحق ڈار کے خلاف میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی(انگریزی لفظ ویشیس نیس استعمال کیاگیا)۔ جسٹس عظمت نے فورا جوابی وار کرتے ہوئے یہی لفظ استعمال کیا اور کہاکہ یہی مہم آپ کے موکل اور خواجہ حارث کے موکل نے عدلیہ کے خلاف چلائی، پھر انگریزی محاورہ دہرایا کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ اس کے بعد سماعت کل پندرہ ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔