اَن لکی پاکستانی سرکس میں بُڈھے شیر کی کیٹ واک
Reading Time: 2 minutesنواز شریف کی واپسی اُن سازشی جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں اور جرنلسٹوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے اور اپنے گھناؤنے اور ملک سے غدارانہ پراپیگنڈے کے زور پر حکومتیں گرانے اور بنانے میں ملوث رہے۔
مگر ان موٹی چمڑی اور تھوتھنی والے جانوروں کو تھپڑ محسوس ہی کب ہوتا ہے، افسوس اِس بات کا ہے کہ یہ سب گھٹیا کردار تو ناکام ہو گئے مگر انکی سازش کامیاب ہو گئی ہے.
ملکی معیشت اِس حال پر پہنچ گئی ہے کہ سرمایہ کاری کی گارنٹی حکومت نہیں فوج دیتی ہے اور خود سازش کا شکار سیاستدان اقتدار کے علاوہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اب پر کٹے کبوتروں کو پر کٹے میڈیا کے کیمروں کے سامنے آزاد کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اب سیاستدانوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو آئین کی مزاحمت کا بیانیہ ترک کر کے آئین سے مفاہمت بلکہ اس کی تابعداری کا بیانیہ بنانا ہو گا.
نواز شریف کی واپسی اور عمران خان کی سیاست سے روانگی ایک ایسا ”اَن لکی پاکستانی سرکس” بن چکا ہے جس میں ہاتھی اور شیر سے زیادہ تماشبین عوام سدھائی ہوئی لگتی ہے جو ہر نئے رنگ ماسٹر کے اشارے پر تالیوں اور گالیوں سے نوازتی ہے۔
یہ تالیاں اور گالیاں رنگ ماسٹر کی ریکارڈنگ ہوتی ہیں جن کو سپیکر پر مرضی سے چلا کر تماش بینوں کے کمزور ردِ عمل میں جان ڈالی جاتی ہے۔
پہلے ہاتھی کی چنگاڑ بلند سنائی دیتی تھی اور اب سپیکروں سے نکلتی شیر کی دھاڑ نے ماحول گرما رکھا ہے اور سپیکر سے نکلتی تالیوں کی گونج سے لگتا ہے کہ اقتدار کے سٹیج پر بڈھے شیر کو جلد ہی ”کیٹ واک” کروائی جائے گی اور اسی سرکس کا بڈھا ہاتھی زنجیر پا رقص جاری رکھے گا۔
زنجیر تو نظام کے پاؤں میں بھی پڑی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاؤں کی زنجیر پہلے ٹوٹے گی یا اس نظام کی زندگی کی ڈور؟
تقریر پر تبصرہ
اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے عوام سے جذباتی یا محبت بھرے تعلق کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی کیونکہ وقت پڑنے پر انہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
سیاسی قیادت کو ایسی تقریروں سے آگے جا کر اپنے کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کو ایسے منظم کرنا چاہیے کہ عوام سے اس کی محبت سیاست میں برابر مواقع کی صورت نظر آئے.
طویل جلا وطنی کے بعد واپسی پر عام کارکنوں کو بھی اپنے قائد کے کندھے پر سر رکھ کر آنسو بہانے کا موقع ملنا چاہیے.