انتظار پنجوتھہ کے ساتھ جو ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا: اسلام آباد ہائیکورٹ
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نے ایس ایچ او کو ہدایت کی ہے کہ اغواکاروں کی جانب سے 24 دن بعد چھوڑے گئے وکیل انتظار پنجوتھہ کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی جہاں عدالت کو وکیل علی بخاری نے بتایا کہ انتظار پنجوتھہ بازیاب ہو گئے لیکن ابھی ان کی حالات اچھی نہیں ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ انتظار پنجوتھہ کو کچھ وقت دیں اور اس کے بعد اُنکا تھانے میں بیان قلمبند کیا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ انہوں نے انتظار پنجوتھہ سے متعلق ٹی وی پر دیکھا اور بہت برا لگا، یہ ادارے اور تمام لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، کراچی میں جو کام ہوتا تھا یہاں بھی وہی ہونا شروع ہو گیا ہے، مسنگ پرسنز اور سٹریٹ کرائمز بہت بڑھ گئے ہیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ تمام سٹیٹ ایجنسیاں میرے جیسے دہشتگردوں کے پیچھے ہوں گی تو پھر سٹریٹ کرائم تو بڑھے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ پھر دہشت گردی نہ کریں، میں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہے،انرجی غلط جگہوں پر استعمال کی جا رہی ہے۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ آج انتظار پنجوتھہ ہے کہ کل میں بھی ہو سکتا ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ ایک دو دن بعد انتظار پنجوتھہ سے رابطہ کریں اور مکمل تعاون کریں، قانون قاعدے کے مطابق آپ اپنی کارروائی کریں، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے برداشت کیا جا سکے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ انتظار پنجوتھہ کے ساتھ جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکومت پر تنقید اگر کوئی کرتا ہے تو اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب دیکھیں کہ اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال کیوں ہے، انتظار پنجوتھہ نے جو کہا کہ بھتے کے لیے انہیں اٹھایا گیا تو اسے ہی دیکھ لیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے نیک نیتی سے ایک کوشش کی لیکن اسے منفی انداز میں لیا گیا،
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آزادیِ رائے کو اتنا نہ کریں، یہ چیز بھی دیکھنے والی ہے۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے 24 گھنٹوں میں ریکوری کا کہا تو سوال تو اٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تنقید کریں لیکن ہمارے فیصلوں پر کریں شخصیات پر نہ کریں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل سے متعلق کوئی کمپین ہے تو اس کو ختم کر دیں۔ ہمیں عدلیہ کو جو کہنا ہے کہہ لیں لیکن لا افسران آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔