افغانستان میں’جہنم کے قریب ترین جیل‘ کا منظر، بزرگ برطانوی کی روداد
Reading Time: 2 minutesافغانستان میں قید ایک 80 سالہ برطانوی نژاد شخص نے کہا ہے کہ وہ ’جہنم کے قریب ترین جیل‘ میں رہ رہا ہے۔
پیٹر رینالڈز اور باربی کو رواں برس یکم فروری کو ان کے چینی نژاد امریکی دوست فائی ہال اور ان کی ترجمان کے ہمراہ صوبہ بامیان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس جوڑے کے پاس افغان پاسپورٹ ہیں اور وہ 18 برس سے وہاں مقیم ہیں۔ انہوں نے سنہ 1970 میں افغانستان میں شادی کی اور مختلف تعلیمی منصوبے چلائے۔
انہیں ایک چھوٹے کرائے کے طیارے میں کابل سے بامیان جانے کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بارے میں بعد میں بتایا گیا کہ ان کے پاس لینڈنگ کی اجازت نہیں تھی۔
ایک فون کال میں، جس کی تفصیلات برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے ساتھ شیئر کی گئیں، پیٹر رینالڈز نے پُل چرخی جیل کے حالات کو ’کوٹھری کے بجائے پنجرے میں رہنے‘ کے طور پر بیان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کے ساتھ ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھا گیا ہے۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جس نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو قتل کیا ہے اور وہ چیختا چلاتا ہے، جیسے اس میں شیطان حلول کر گیا ہو۔‘
پیٹر رینالڈز کے مطابق انہیں دن میں صرف ایک بار کھانا ملتا ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلے میں ’وی آئی پی حالات‘ میں رہ رہے ہیں، جسے جیل کے خواتین ونگ میں رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کا ماحول کافی حیران کر دینے والا ہے۔ میں افغانستان کے اس ناخوشگوار راز کے بارے میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔‘
’جیل کے محافظ ہر وقت چیختے رہتے ہیں اور لوگوں کو پائپ کے ٹکڑے سے مارتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک ماحول ہے، جہنم کے قریب ترین چیز جس کا میں تصور کر سکتا ہوں۔‘
پیٹر نے کہا کہ اُن چاروں کو ابتدائی طور پر بتایا گیا تھا کہ انہیں جلد رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم ان کے فون ضبط کر لیے گئے اور انہیں کابل میں وزارت داخلہ کے حوالے کر دیا گیا۔