سربیا کے بڑے شہر نیش میں کھوپڑیوں کے مینار کس کی یادگار ہیں؟
Reading Time: 5 minutesصادق کاکڑ
نیش سربیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا شہر ہے، آثار قدیمہ کے بعض ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ شہر تیسری صدی قبل مسیح میں بسایا گیا تھا اور تب سے لے کر اب تک یہ شہر انسانی تاریخ کا شاہد ہے۔ لیکن اس دور کے کلئیر شواہد کے بجائے یہاں قبل اسلام کے دور کی تیسری صدی کے قلعہ کے آثار کے علاوہ چوتھی صدی عیسوی کے بادشاہ وقت کے محل کے آثار بھی موجود ہیں جو 1935 میں دریافت ہو گئے تھے اور اب ان آثار کو بہت ہی طریقے سے سنبھال کر رکھا گیا ہے۔ قبل از مسیح کے زمانے سے نہ سہی لیکن یہ بات تو یقینی ہے کہ یہ شہر تیسری یا چوتھی صدی عیسوی سے یہاں موجود ہے۔ اس تاریخی محل کے آثار کو "مدیانہ” کہتے ہیں۔
نیش میں میرے کئی مقامی دوست تھے جو 2۔3 سال سے سربیا اور خاص کر نیش بلا رہے تھے اور میں خواہش کے باوجود مصروفیات کی وجہ سے بہانہ بناتا رہا۔ اب کی بار ایک دوست نے چند یورپی ملکوں کے نوجوانوں کے لئے ایک ورک شاپ کا انعقاد کرایا تو مجھے لازمی طور پر آنے کا حکم بھی دے دیا۔ اب میرے پاس کوئی خاص بہانہ نہیں بچا تھا تو میں اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لئے سربیا چلا آیا۔
سکوپئیے سے نیش تقریبا 200 کلومیٹر کا سفر تھا، عید کا دن سکوپئیے میں گزارنے کے بعد میں نے 2 بجے کی بس لی اور نیش کی طرف روانہ ہو گیا۔ بس کی ٹکٹ میں ایڈوانس میں ہی کروا چکا تھا کیونکہ یہاں محدود بسیں چلتی ہیں اور سٹیشن پر ٹکٹ ملنا مشکل ہو سکتا تھا۔
ایک گھنٹہ شمالی مقدونیہ کے خوبصورت میدانوں اور قصبوں سے گزرنے کے بعد سربیا کا بارڈر پہنچ گیا۔ بارڈر کے ایک طرف ہم سب بس سے اترے اور پیدل ہی اپنے پاسپورٹ اور ویزہ چیک کرانے امیگریشن آفس کی کھڑکی پر چلے گئے۔ سربیا بھی شنجن ایریا میں نہیں آتا لیکن شنجن کارڈ پر آپ یہاں بغیر ویزے کے آ سکتے ہیں۔ بارڈر کراس کرتے وقت جب امیگریشن آفسر نے سربیا جانے کی وجہ پوچھی تو اسے بتایا کہ ایک ورک شاپ میں شرکت کرنی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر وہ سوال و جواب کرنے لگا تو اسے بتایا کہ بیلجیئم میں سٹوڈنٹ ہوں۔ اتنی دیر میں وہ میرے پاسپورٹ کے صفحات الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ پہلے پاکستانی پاسپورٹ کی وجہ سے میں مشکوک تھا لیکن اب ایک سٹوڈنٹ کے پاسپورٹ پر اتنے سارے مہر اور ویزے دیکھ کر اس کے کان سچ میں کھڑے ہو گئے تھے کہ یہ بندہ سٹوڈنٹ کیسے ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے ویزے پر 10 منٹ لگانے اور مختلف سوالات کرنے کے باوجود بھی اسے تسلی نہ ہوئی تو مجھ سے ہوٹل کی بکنگ مانگ لی۔ اسے بتایا کہ مجھے صرف ہوٹل کا نام معلوم ہے، کیونکہ یہ مقامی آرگنائزر نے بک کروایا ہے اور یورپین یونین اس کے پیسے ادا کرتا ہے۔ بس کے سارے مسافر دوسری سائڈ پر میرا انتظار کر رہے تھے اور میں امیگریشن افسر کے سوالات در سوالات کا سامنا کر رہا تھا لیکن خوش آئند بات یہ تھی کہ مجھے بلاوجہ تنگ کرنے کے بجائے اس کا سارا فوکس خود اپنی تسلی پر تھا اور اس کا خوش اخلاق رویہ مجھے کافی اچھا لگا۔ (یہ دلچسپ اور تفصیلی روداد آپ میری کتاب میں پڑھیں گے )
میں شام کے وقت نیش پہنچا اور ٹیکسی لے کر سیدھا اپنے ہوٹل پہنچ گیا۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا لیکن میرے نام کے ساتھ میرے کمرے کی چابی رکھی ہوئی تھی۔ چابی اٹھانے کے بعد اوپر گیا تو ہوٹل کی بلڈنگ میں اپنا کمرہ نہیں ملا تو آرگنائزر کو میسج کر کے میں وہی استقبالیہ پر انتظار کرنے لگا۔۔ سفر کی تھکاوٹ اتارنے کے لئے استقبالیہ پر رکھے الیکٹرک جگ سے پانی گرم کیا اور اپنے لئے چائے بنا لی۔ گھنٹہ بعد پورا گروپ ہوٹل آیا، تو ان سے ملا اور رات کا کھانا ہوٹل کی لابی میں کھانے کے بعد آرام کرنے اپنے کمرے چلا گیا جو روڈ کے پار دوسری بلڈنگ میں تھا۔
نیش کبھی رومن امپائر، بلغارین، اور ہنگرینین فاتحین کے زیر اثر رہنے کے بعد بالآخر 12ویں صدی کے آخر میں مقامی سربین کے زیرتسلط آیا۔ تقریبا 2 صدی مقامی افراد کا تسلط رہنے کے بعد 1375 میں خلافت عثمانیہ نے یہ سارے علاقے فتح کئے تو نیش بھی ان کے زیرقبضہ چلا گیا۔ اگلے 500 سال تک یہاں خلافت عثمانیہ کی حکومت رہی۔ 1809 میں مقامی سربین آبادی نے آزادی کی کوشش کی اور ایک خطرناک جنگ میں مقامی اور خلاف عثمانیہ کے کافی لوگ مارے گئے، بدلے میں یہاں کی مقامی تاریخ کے مطابق خلاف عثمانیہ نے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے یہاں "کھوپڑیوں کا مینار” تعمیر کیا، جس میں 900 لوگوں کی کھوپڑیوں کو مٹی کے گھارے میں دبا کر اونچا مینار تعمیر کرایا گیا تاکہ مقامی آبادی کو سبق سکھایا جا سکے۔ شاید یہ کھوپڑیوں کا مینار خلافت عثمانیہ کی وہ غلطی تھی جو خوف پھیلانے کے بجائے مقامی آبادی کو مزید بغاوت پر ابھارنے لگی اور بالآخر 1878 میں یہ علاقہ خلافت عثمانیہ کے تسلط سے باہر چلا گیا۔
مجھے یہاں کے مقامی دوست "کھوپڑیوں کا مینار” دکھانے بھی لے گئے، جو شہر کے اندر ہی ہے اور اسے اب شیشے میں بند کر دیا گیا ہے اور اس کے اوپر ایک چھوٹی سی عمارت بنا دی گئی ہے۔ آپ ٹکٹ لے کر اس عمارت کے اندر جیسے ہی داخل ہوتے ہیں تو آپ کو مٹی کے گھارے میں پروئے ہوئے لاتعداد انسانی کھوپڑیاں نظر آتی ہیں اور آپ پر ایک عجیب سی وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ گھارے کے بیچ سے جگہ جگہ کھوپڑیاں نکل چکی ہیں لیکن اب بھی کافی زیادہ تعداد میں کھوپڑیاں یہاں موجود ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ مقامی تاریخ ہے جو یہاں بیان کی جاتی ہے اور ان کے پاس یہ کھوپڑیوں کا مینار بطور ثبوت موجود ہے۔ اب خلافت عثمانیہ نے کیا اچھا کیا ہے اور کیا برا کیا ہے یہ تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس تاریخ کو سچ یا جھوٹ بنانے کے ثبوت موجود ہیں۔ (تفصیلات مزید تحقیق کے بعد اپنی کتاب میں لکھوں گا، ان شاءاللہ)
ایک ہفتہ کے لئے نیش میں موجود رہوں گا، اور چند مقامی دوست میرا بےتابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ نئے لوگوں سے ملنا اور سربیا کی تاریخ اور کلچر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملےگا۔
ابتدائی دنوں میں اتنی بات جان گیا ہوں کہ نیش کے لوگ کافی خوش اخلاق اور خوبصورت ہیں، یہاں ہر دوسرا بندہ انگلش سمجھتا اور بولتا ہے، اس شہر میں تاریخی قلعہ، صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافت ہر چیز موجود ہے اور یہی چیزیں میں ہر شہر میں ڈھونڈتا ہوں۔
آپ نیش کی کچھ تصویریں دیکھیں،
کون ملا، کیا دیکھا۔۔۔ یہ کہانی پھر سہی.