عدالت کے باہر جو کچھ ہوتا ہے
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں جہانگیرترین نااہلی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت کے باہر جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ قابل ستائش ہے، ہمارے تحمل اور برداشت کی داد دی جائے، کسی کے کچھ کہنے سے ہماری شان اور انصاف میں کمی نہیں آئے گی، کسی کے لیے اپنے کام میں ڈنڈی کیوں ماریں ۔
عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں جہانگیرترین اور عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالتی معاونت کرتے ہوئے کہاکہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آرڈی ننس کی جن شقوں پر آج سوال اٹھایا جا رہا ہے، جس وقت جہانگیر ترین نے شوکاز نوٹس پر جواب دیا اور جرمانہ جمع کرایا اس وقت قانون کو تسلیم کیا تھا۔ اگر کسی قانون کی شق پر اعتراض ہے تو اس کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے چیلنج کیا جاسکتاہے مگر اس کیس کی کارروائی کے دوران قانون کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں کی جاسکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ترین نے درخواست پر جواب میں اس قانون کو چیلنج کیا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پہلے کے تحریری جواب میں ایسی کو بات نہیں کی گئی تاہم ضمنی جواب میں قانون کو آئین سے متصادم کہا گیا۔ جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ عوامی مفاد کے مقدمے عدالت کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے وکیل کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے تحریری گزارشات جمع کرائے۔
وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کے انیس سو ستانوے میں جمع کرائے گئے کاغدات نامزدگی طلب کرکے جائزہ لیا جائے تو حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ عمران خان کے 2002 میں بھی کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوئے، اگر عمران خان نے اگر اثاثے چھپائے ہوتے کاغذات نامزدگی مسترد ہو جاتے، کاغذات نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھائے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ 1997 کے کاغذات نامزدگی کی دستاویزات ہمارے پاس نہیں ہے، اب نامزدگی کافارم کہاں سے ڈھونڈ کرلائیں۔ عدالت نے اکرم شیخ کی استدعا مسترد کر دی۔ سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔