بیٹی کے ریپ پر باپ کو سزا
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے بیٹی کا ریپ کرنے کے مرتکب باپ کی سزائے موت میں کمی کرتے ہوئے 12سال قیدکی سزا سنادی ، عدالت نے سزا میں کمی کرنے کے ساتھ دفعہ382کے تحت ملنے والی رعایتیں دینے کی بھی ہدایت کردی ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے قصورکے علاقہ کھڈیاں کے رہائشی مجرم محمد سرور کی اپیل کی سماعت کی ۔ مجرم محمد سرور نے قصور میں 2008میں اپنی بیٹی کوپانچ بار ہوس کا نشانہ بنایا جس کا مقدمہ مجرم کی اہلیہ نے دائر کروایا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت سنائی جسے ہائیکورٹ نے برقرار رکھاتھا ۔ فاضل بنچ نے کیس کا گہرائی سے جائز لینے کے لئے دو گھنٹے سے زائد وقت تک حقائق کا جائزہ لیا ، مجرم کے وکیل رفاقت حسین شاہ کا دلائل میں کہنا تھا کہ ان کے موکل پر جھوٹا الزام لگایا گیا کوئی گواہ نہیں ہے حالانکہ لڑکی کے دو بھائی بھی گھر میں موجود تھے، گھر بھی ایک ہی کمرے پر محیط ہے اور استغاثہ نے کہاکہ وقوعہ ہمسائیوں نے دیکھا لیکن کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا، کیاکوئی باپ اس قسم کی بات سوچ بھی نہیں سکتا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ لڑکی نے نہ شور مچایا اور نہ ہی اس پر تشدد سامنے آیا ، اگر باپ نے 16 سال تک بچی کو کچھ نہیں کہا تو بیوی کے روٹھ کر جانے پر ایک ہی دن میں یہ اقدام کیسے کیا اور ایسا اس نے کیوں کیا؟جبکہ دوسرے ہی روز بیوی واپس آگئی اور بچی کو لے کر تھانے چلی گئی۔ جج کا کہنا تھا کہ اگر یہ الزام سچا ہے تو بھی بہت بڑا الزام ہے اور اگر جھوٹا ہے تب بھی_ اس دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد جعفر نے کہا کہ ڈی این اے میں ثابت ہوگیا تھا کہ والد نے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی، وکیل کا کہنا تھا کہ ڈی این اے میں تاخیر کا ذمہ دار استغاثہ نہیں ہے کیونکہ ڈی این اے کے لئے مختلف ہسپتالوں میں گئے وہاں سے اگلے ہسپتال ریفر کر دیا جاتا تھا، استغاثہ نے پوری ایمانداری سے شواہد اکٹھے کئے جس پر عدالتوں نے سزاسنائی۔ اس دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ میں خود دیہاتی بیک گراﺅنڈ سے ہوں جب وکالت کےلئے شہر آیا تو پتہ چلا کہ ہمارے ملک میں دیہاتی اور شہری زندگی میں بڑ ی تقسیم ہے، دیہات میں رہنے والے شہر کی زندگی سے لاعلم جبکہ شہر والے دیہاتی زندگی سے لاعلم ہیں ، سندھ میں دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے دشمن کو قتل کرکے کاروکاری کے الزام میں بیٹی کو بھی قتل کردیتے ہیں ،جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ حیرت ہوتی ہے کہ کسی سے بدلہ لینے کےلئے کسی بھی قسم کا الزام لگادیا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ دیہاتوں میں بچیوں کی 15،16سال کی عمر میں شادی کردی جاتی ہے ۔لیکن جو بچیاں اپنے والدین کو چھوڑ کر شادی کرتی ہیں وہ بھی والدین کو برباد کر دیتی ہیں لیکن اس معاشرے میں کسی پر کوئی بھی الزام لگایا جاسکتا ہے ۔بدلہ لینے کے لیے دشمن کو قتل کرکے بیٹیوں کو قتل کیا جاتا ہے، اپنا مقصد نکلوانے کے لیے ظلم و زیادتی کی جاتی ہے ۔اس دوران مجرم کے وکیل نے محمڈن لا کاحوالہ دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ قانون کو یہ نام تو انگریزوں نے دیا تھا اب ہمیں اسے اسلامی قانون کہنا چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے سزائے موت کو بارہ سال قید میں تبدیل کر تے ہوئے کہاکہ بعض حقائق واضح نہ ہونے پہ سزا میں کمی کی جاتی ہے۔