خان ۔ ترین نااہلی فیصلہ محفوظ
Reading Time: 2 minutesعدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے جوابی دلائل میں وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کے کسی جواب میں تضاد نہیں، مقدمہ درخواست گزار کے اٹھائے نکات پر آگے نہیں بڑھا، عدالت کے پوچھے سوالوں پر جواب جمع کرائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پرانی باتیں نہ دہرائیں،یہ بات ہوچکی ہے کہ لندن فلیٹ ظاہر شدہ تھا مگر نیازی کمپنی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔وکیل نے کہاکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ عمران خان نے لندن فلیٹ خریداری کیلئے منی لانڈرنگ نہیں کی۔درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ عدالت نے عمران خان کو جواب میں ترمیم کی اجازت نہیں دی، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم یہ حقیقت مدنظر رکھے ہوئے ہیں۔وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ کاغذات نامزدگی میں بیوی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی نہیں ہوسکتی، صرف کاغذات مسترد ہوسکتے ہیں، عمران خان نے یہ غلطی کی مگر یہ غلط بیانی نہیں، دوہزار دو کے کاغذات نامزدگی کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا گیا، پانامہ اور اس کیس میں فرق ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ عمران خان نے اپنے یورو اکاﺅنٹ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے پانامہ نظرثانی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ غلطی پر بھی نااہلی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا دوہزار دو کے کاغذات نامزدگی میں غلطی پر آج کارروائی ہوسکتی ہے؟۔ وکیل اکرم شیخ نے جواب دیاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جہاں دوہزار آٹھ کے کاغذات نامزدگی اور دوہزار تیرہ کے کاغذات نامزدگی میں ڈگری کے بارے میں مختلف بات کرنے پر عدالت نے رکن اسمبلی کو نااہل قرار دیا تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کی ضرورت ہے کہ جو کچھ بھی سامنے آیا ہے اس میں تلاش کرے کہ کون سچ کہہ رہاہے۔عمران خان کے جواب میں بہت سی باتیں بعد میںعدالتی اجازت کے بغیر شامل کی گئیں، یہ ساری چیزیں ہمارے علم میں ہیں۔مکمل تصویر سامنے رکھ کر دیکھناہے کہ یہ بددیانتی ہے یا نہیں، شخصیت کی دیانتداری کامعاملہ ہے۔جج کی دوتہائی زندگی سچ کی تلاش کرتے گزرتی ہے۔ فیصلہ کل نہیں سناسکتے، یہ سوچ بچار کرکے احتیاط سے لکھاجانے والا فیصلہ ہے۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر سے چیف جسٹس نے پوچھاکہ لندن پراپرٹی کا مالک کون ہے، وکیل نے جواب دیاکہ کمپنی شانئی ویو مالک ہے جس کے اوپر ٹرسٹ ہے، جہانگیر ترین کی بھیجی گئی تمام رقوم بلآخر شائنی ویو کمپنی کے اکاﺅنٹ میں گئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا پھر ترین اس کے مالک ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جہانگیر ترین کی نیک نیتی دیکھ رہے ہیں۔ کچھ چیک ایسے ہیں جو شائنی ویو کے نام نہیں۔ وکیل نے کہاکہ بالکل ایسا ہے مگر اس سے نااہلی نہیں ہوتی، تمام رقوم کی دستاویزات موجود ہیں اور یہ قانونی آمدن تھی۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ رقم قانونی ہومگر ظاہرنہ کی گئی ہوتو نااہلی ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ پراپرٹی کیسے ٹرسٹ کی ملکیت ہوئی جبکہ رقم ترین نے شائنی ویو کو بھیجی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جواب دیکھ لیا جائے جس میں ٹرسٹ ڈیڈ شامل ہے اور لکھا گیاہے کہ ترین تاحیات بینیفشری ہیں۔ وکیل نے کہاکہ وہ صوابدیدی بینفشری ہیں۔ عدالت نے فریقین کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔