کالم

مضحکہ خیز بے بسی کا شکار

نومبر 29, 2017 4 min

مضحکہ خیز بے بسی کا شکار

Reading Time: 4 minutes

احسن اقبال ذہین وخوش گفتار ہیں ۔سب کچھ لٹادینے کے بعد مگر اب وہ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد سے دھرنے کو ریاستی قوت کے استعمال کے ذریعے ہٹانے کی کوشش ناکام ہوئی تو اس ناکامی کے ذمہ دار وہ نہ تھے۔

کہانی وہ کچھ اس طرح کی بُن رہے ہیں جس کا مقصد مجھے اور آپ کو قائل کرنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عزت مآب جج کی دھرنے سے خفگی کے باعث عدلیہ، انتظامیہ کے ساتھ Direct ہوگئی تھی۔ پولیس نے اپنے وزیر داخلہ کی سیاسی بصیرت کے بغیر ایکشن لیا۔ وہ ایکشن کچھ Tacticalکوتاہیوں کی وجہ سے کارآمد ثابت نہ ہوا اور بالآخر حکومت مظاہرین کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئی۔
احسن اقبال کے اپنے دفاع میں چنے چند نکات یقینا ٹھوس اور درست ہیں۔ وہ انہیں لیکن بہت مہارت کے ساتھ Big Pictureسے جدا کرتے ہوئے بیان کررہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے،مثال کے طورپر وہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کررہے ہیں کہ تقریباََ آپریشن کے عین درمیان ان کے وزیر اعظم کو ایک فون آیا جس میں حکومت اور مظاہرین کو دوفریقین کی صورت پیش کرتے ہوئے تشدد استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس ”مشورے“ نے حکومت کے اوسان خطا کردئیے۔ وہ حواس باختہ ہوگئی۔
منطقی بحث کی خاطر لیکن میں احسن اقبال کی بنی کہانی تک ہی محدود رہنے کو تیار ہوں۔ مان لیتا ہوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عزت مآب جج مظاہرین کو فیض آباد سے ہٹانے کا حکم دے چکے تھے۔ نظر بظاہر وزیر داخلہ اس حکم کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے نظر آئے تو انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس مل گیا۔
پولیس اور ضلعی انتظامیہ عدالتی برہمی کا سامنا کرنے کو پیشہ وارانہ وجوہات کی بناءپر تیار نہیں ہوا کرتیں۔پولیس نے ”سیاسی باس“ کی رہ نمائی کے بغیر ایک ایکشن پلان بنایا۔ یہ پلان ناکام ہوا تو مظاہرین کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ احسن اقبال صاحب کالیکن اگر ناکام ہوئے ایکشن سے کوئی واسطہ نہیں تھا تو بطور وزیر داخلہ انہوں نے اس معاہدہ پر دستخط کیوں کئے جسے میں ریاستی رٹ کو Surrenderکرنے والی دستاویز کہنے پر مجبور ہوں۔
مجھے کامل یقین ہے کہ ریاستی امور کو ایک کل وقتی سیاست دان ہی نہیں بلکہ علمی اعتبار سے بھاری بھر کم مطالعے کی بدولت سمجھنے والے احسن اقبال صاحب کو بھی دل سے یہ محسوس ہوچکا ہوگا کہ انہوں نے ریاستی رٹ کو Surrenderکرنے والی دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔ کاش انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی بجائے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہوتا۔
ان کا استعفیٰ یقینا اس معاہدے کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کو ہرگز نہ روک پاتا۔ شاید سیکرٹری داخلہ کے دستخط ہی اس کے لئے کافی ہوتے۔ مظاہرین اصرار کرتے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ”بحران ٹالنے“ کا بہانہ بناتے ہوئے اس معاہدے پر دستخط کرسکتے تھے۔ اس معاہدے پر بطور وزیر داخلہ دستخط کردینے کے بعد احسن اقبال جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں،فقط Spin Doctoringہے۔ بہانے بازی ہے۔ تغافل میں جرا¿ت آزماہونے والی سادگی وپرکاری ہے۔
سمجھ نہیں آرہی کہ احسن اقبال جیسا ذہین وفلطین سیاست دان یہ بات کیوں نہیں سمجھ پارہا کہ جس معاہدے پر ان کے دستخط ثبت ہیں اس پر عمل درآمد نے وقتی طورپر فیض آباد کھلواتو دیا ہے مگر طویل المدتی تناظر میں اس معاہدے کی بدولت آنے والے دنوں میں کئی دھرنوں کو جواز بھی فراہم کردیا گیا ہے۔
بغیر کسی ذاتی خطا کے زاہد حامد اس معاہدے کی بدولت اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔ استعفیٰ کے باوجود وفاقی حکومت کو مظاہرین کے رہ نماﺅں سے یہ فریاد کرنا پڑی کہ وہ زاہد حامد کے خلاف کوئی ”فتویٰ“ جاری نہیں کریں گے۔
زاہد حامد کو ”فتویٰ“ سے بچاتے ہوئے ریاستِ پاکستان نے تحریری طورپر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ آئین اور قانون سے بالاتر ”علمائے کرام“ پر مشتمل ایک اور قوت بھی ہے۔ یہ قوت فتویٰ کے اجراءکے ذریعے کسی پاکستانی کو مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کا حق واختیار رکھتی ہے۔
بات اگر زاہد حامد کی ذات تک محدود رہتی تو شاید دل دہلادینے والے اس پہلو کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ مظاہرین کے ساتھ ہوئے معاہدے میں ہماری حکومت نے لیکن یہ تحریری وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ آئندہ تیس دنوں میں راجہ ظفر الحق صاحب کی جانب سے ہوئی تفتیش کو منظرِ عام پر لائے گی۔ اس تفتیش کی بدولت ان افراد کی ”نشان دہی“ مقصود ہے جنہوں نے مظاہرین کے بقول ختم نبوتﷺ کے قانون کو ”تبدیل“ کرنے کی کوشش کی۔ تبدیلی کی یہ کوشش ”گستاخی“ ٹھہرادی گئی ہے۔ اگرچہ پارلیمان نے غلط یا درست انداز میں ”خطا“ ٹھہرائی اس تبدیلی کا ازالہ کردیا ہے۔معاملہ اس کے بعد ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ زاہد حامد کا استعفیٰ اس کے باوجود ہوا اور اب ان سے ہوئی مبینہ”خطا“ کے ”سہولت کاروں“ کی ”نشاند ہی“ درکار ہے۔ یہ ”نشان دہی“ ہوگئی تو خطا وار ٹھہرائے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا وعدہ بھی اسی معاہدے میں تحریری طورپر کردیا گیا ہے۔ کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلازاہد حامد کے بعد والا سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس سوال کا جواب فراہم نہ ہوا تو ورنہ ہوگا – دھرنا ہوگا۔
Whatsapp کے توسط سے پھیلائی کہانیوں نے زاہد حامد کے بعد ایک اور وزیر کو بھی ختم نبوتﷺ کے قانون میں ”تبدیلی“ کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا ہے۔ انگلیاں وزارتِ خارجہ کی جانب بھی اُٹھ رہی ہیں۔ الزام ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے حقوقِ انسانی میں اہم مقام حاصل کرنے کے لئے قانون میں ”تبدیلی“ کا جال بچھایا گیا تھا۔ یہ کہانی پھیلانے والوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ مذکورہ ادارے کی سربراہی سعودی عرب کے پاس بھی ہوا کرتی تھی اور اس ملک میں بادشاہت ہے۔ پارلیمانی نظام نہیں۔ وہاں انتخابات بھی نہیں ہوتے۔ ”آزادی اظہار“ کی روایتی صورتیں بھی موجود نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (نون) کا حقیقی المیہ مگر یہ ہے کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق It has lost the script۔ سکرپٹ کے بغیر سٹیج پر نمودار ہوئے اداکار ہمیشہ حواس باختہ ہی نظر آتے ہیں۔ کہانی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے مضحکہ خیز بے بسی کا شکار بن جاتے ہیں۔
احسن اقبال ایک ذہین و فطین شخص ہیں۔ میری ان سے درد مندانہ فریاد ہے کہ اپنے وزیر اعظم اور دیگر رفقاء کے ساتھ بیٹھ کر پہلے کوئی معقول Script تیار کریں تاکہ وطنِ عزیز میں کسی ریاستی رٹ کی موجودگی کا گماں ہو ۔ وفاقی وزراء کے اذہان اس ضمن میں بانجھ ہو چکے ہیں تو اجتماعی استعفے دینے میں کوئی حرج نہیں تاکہ گلشن کا کاروبار کسی نہ کسی صورت چلتا ہوا نظر آئے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے