کھیل کے موسم میں مزدوری
Reading Time: 2 minutesبہاولپور سے عمران وسیم
دنیا کے کسی ترقی یافتہ معاشرے پر نظر کی جائے اس کی خوشحالی اور آسودگی میں تعلیم کا کردار نمایاں ہوگا، دنیا کے وہ معاشرے جو ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں اس کی وجہ وہاں شرح تعلیم کی کمی ہے، باریک بینی سے معاشرتی ترقی کے معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے وہاں بہترین تعلیمی سہولیات کے ساتھ غربت کی سطح کا کم ہونا بھی ضروری ہے، کسی معاشرے مین تعلیمی سہولیات موجود ہوں لیکن عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو تو لوگ حصول تعلیم کی بجائے حصول روزگار کی طرف مائل ہوتے ہیں جس کا نتیجہ معاشرے میں شرح خواندگی میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
ایسی ہی مثالیں ہمیں جنوبی پنجاب کے شہروں مین عام دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیمی اداروں کا رخ کرنے کی بجائے مختلف دکانوں، ہوٹلوں اور ورکشاپ پر ملازمت کرتی دکھائی دیتی ہے، اٹھارہ سالہ محمد آصف بھی ایک ایسا ہی نوجوان ہے جو تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے کے باوجود ڈاکٹر، انجینئر یا معاشرے کا فعال شہری بننے کے بجائے موٹر سائیکل مکینک بن گیا، آصف کا تعلق تو سندھ کے ضلع گھوٹکی سے ہیں لیکن وہ بہاولپور میں موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرتا ہے، آصف بتاتا ہے اس کا والد راشد بالٹی میں چنے فروخت کرتا ہے جس سے گھر کا گزارہ نہیں ہو تا، راشد سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے جو دن بھر کی محنت کے بعد تین سے چار سو روپے کما لیتا ہے جو وہ اکٹھا کرتا ہے اور جب کبھی وہ اپنے آبائی شہر کھمبڑہ شریف اوباڑو ضلع گھوٹکی جاتا ہے تو ساری جمع پونجی گھر والوں کے سپرد کر دیتا ہے، آصف کہتا ہے غربت کہ وجہ سے پڑھنا بھی چاہے تو نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس نے اپنا ماں باپ اور بہن بھائیوں کا سہارا بننا ہے اور غربت سے لڑنا ہے ۔
پندرہ سالہ محمد لطیف کی کہانی بھی آصف سے مختلف نہیں جس نے آج تک کسی سکول کالج کا منہ نہین دیکھا، گھر کے مالی مسائل کہ وجہ سے لطیف کے والد غلام مصطفے نے اسے سکول بھیجنے کے بجائے موٹر مکینک کی دکان پر بٹھا دیا جہاں وہ تقریبا چھ سال سے کام کر رہا ہے اور ماہانہ پانچ ہزار کے قریب اسے تنخواہ کی مد مین مل جاتے ہیں، لطیف کہتا ہے اس کا والد ایک چوکیدار ہے، اس کا بڑا بھائی بھی ہوٹل پر کام کرتا ہے، تین بہنوں اور والدین کی مالی معاونت کے لیے کام کاج اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔