پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش
Reading Time: 2 minutesالطاف حسین کے ساتھ مشکل ترین وقت میں کھڑے ہونے والے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ لندن کے ڈپٹی کنوینر پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ملی ہے۔ ملیر کے ابراہیم حیدری تھانے کے ایس ایچ او نے تصدیق کی ہے کہ حسن ظفر عارف کی لاش الیاس گوٹھ کے قریب ایک کار سے ملی جسے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جناح ہسپتال کی ڈائریکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ انھیں مردہ حالت میں لایا گیا ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں، تاہم پوسٹ مارٹم کے بعد مزید صورتحال واضح ہوگی۔
جب الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم لندن اور پاکستان میں تقسیم ہوگئی تو کراچی سے پروفیسر حسن نے ایم کیو ایم لندن میں شمولیت اختیار کی جس پر انھیں گرفتار کیا گیا اور وہ کئی ماہ قید رہے۔ پروفیسر حسن نے ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کو ان کے حوالے کرنے کامطالبہ کیا تھا۔
ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی لاش وصول کرنے والے ان کے بھائی زعیم عارف نے بتایا ہے کہ انھوں نے لاش دیکھی ہے بظاہر تشدد کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی تدفین آج شب ہی سخی حسن قبرستان میں کی جائے گی ۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ لندن کی تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی کے کنوینر ندیم نصرت نے الزام عائد کیا ہے کہ پروفیسر حسن ظفرعارف کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ ایک اعلامیے میں انہوں نے کہا ہے کہ ڈاکٹرحسن ظفرعارف کو حق پرستانہ جدوجہد کی پاداش میں اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بناکر ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
تیرہ سال کی عمر میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے والے حسن ظفر کو ٹیبل ٹینس سے لگآؤ تھا اور کم عمری میں ایم اے کے امتحان میں آرٹس فیکلٹی میں ٹاپ کیا جس کے بعد انہیں لندن میں اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ دی گئی ۔
لندن قیام کے دوران انہوں نے طلبہ کی عالمی تحریک میں بھی حصہ لیا، فلسفے میں پی ایچ ڈی کے بعد وہ وطن واپس آئے اور جامعہ کراچی کے شعبے فلسفہ میں بطور اسسٹینٹ پروفیسر فرائض سرانجام دینے لگے۔
کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کے بھی وہ صدر رہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے بعد جب ترقی پسند تنظیموں پر کڑا وقت آیا تو ڈاکٹر حسن ظفر عارف بھی مشکلات سے دوچار ہوئے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جہانداد خان نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا اور جواب نہ دینے پر انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کے علاوہ گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ظفر کی رہائی کے لیے بیرون ملک بھی مہم چلائی گئی ۔
بینظیر بھٹو کی واپسی اور فوجی حکومت سے رابطوں پر وہ بدظن ہوکر پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوگئے اور خود کو ترقی پسند ادب کے ترجمے تک محدود کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی اور ان کے رابطے پر ڈاکٹر حسن ظفر دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوئے لیکن مرتضیٰ بھٹو کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کے بعد وہ دوبارہ غیر فعال ہوگئے۔
کئی سالوں کی سیاسی کنارہ کشی اور خاموشی کے بعد انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ لندن میں شمولیت اختیار کی اور انہیں پاکستان میں تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔