راؤ انوار نے مجھے واٹس ایپ کال کی۔ آئی جی
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کيس ميں سندھ پوليس کے مفرور ايس پی راؤ انوار کے تمام بنک اکاونٹس منجمد کرنے کا حکم ديا ہے، عدالت نے راو انواز کو عدم پيشی پر توہين عدالت کا نوٹس بھی جاری کيا ہے ۔
چيف جسٹس کی سربراہي ميں 3 رکنی بنچ نے کيس کی سماعت کي، چيف جسٹس ثاقب نثار نے آئي جي سندھ اے ڈي خواجہ سے استفسار کيا کہ کیا راؤ انوار صاحب تشریف لائے ہیں، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے جواب ديا کہ راؤ انوار تاحال نہیں آئے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ريمارکس ديے کہ راؤ انوار کو پورا موقع دیا تھا، راؤ انوار کی گرفتاری پولیس کا کام ہے، تمام ایجنسیوں کو بھی سندھ پولیس کی مدد کیلئے تکہا تھا، راؤ انوار نے بڑا موقع گنوا دیا، ہم نے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دی۔ اگر وہ آتے تو ہم آزادانہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دیتے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس کے بعد عدالت نے ايس پی اؤ انوار کے پیش ہونے کا انتظار کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر ديا۔
ایک گھنٹے کے بعد چيف جسٹس نے ريمارکس ديے کہ کافی وقت گزر چکا آئی جی سندھ کو بلا لیں، میرا خیال ہے راؤ انوار نہیں آنا چاہتے، چیف جسٹس نے آئی جي سندھ سے سوال کيا کہ آپ کو اب تک کوئی سراغ نہیں ملا؟ اب آپ ہی بتائیں کیا کریں؟ اے ڈی خواجہ نے جوابا کہا کہ گزشتہ سماعت کے بعد راؤ انوار نے واٹس ایپ پر کال کی، راؤ انوار نے عدالت میں پیش ہونے کا بتایا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ريمارکس ديے کہ کیا راؤ انوار اسلام آباد میں ہے، آئي جي سندھ نے جواب ديا کہ یہ معلوم نہیں کال واٹس اپ کی تھی۔ چيف جسٹس نے کہا کہ پولیس نے شروع میں سستی کا مظاہرہ کیا، ائیرپورٹ سے راؤ انوار گرفتار ہو سکتا تھا۔
آئی جی سندھ پوليس اے ڈی خواجہ نے کہا کہ راؤ انوار نے پوچھا کیا آئی جی اسلام آباد سیکیورٹی دیں گے، راؤ انوار کے فون سے معلوم ہوتا ہے خط انہی کا تھا۔ چيف جسٹس نے حکم ديتے ہوئے کہا کہ تمام حساس ادارے راؤ انوار کی تلاش کیلئے مدد کریں۔ آئي جي سندھ نے عدالت کو بتايا کہ میڈیا سے معلوم ہوا راؤ انوار کو جے آئی ٹی پر اعتراض ہے، آفتاب سلطان کی سربراہی میں نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ وکيل سول سوسائٹی فیصل صدیقی نے کہا کہ صرف راؤ انوار نہیں 15 پولیس افسران مفرور ہیں۔ تمام گواہان کراچی سے کسی دوسرے شہر منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ گواہان کراچی میں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں، عدالت نے تمام صوبائی آئی جیز کو گواہان کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم ديا۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتايا کہ ہر گواہ کو تین پولیس اہلکار دئیے گئے ہیں، اس کيس ميں 9 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جب کہ باقی 12 ملزمان فرار ہو چکے ہیں، چيف جسٹس نے ريمارکس ديے کہ آپ نے تو آدھے ملزم بھی نہیں پکڑے، پنجاب پولیس نے 36 گھنٹے میں زنیب کا ملزم گرفتار کیا۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ انشا اللہ پوری کوشش کریں گے۔چیف جسٹس نے ريمارکس ديے کہ آپ کی کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا، اپنی طرف سے بھرپور کوشش کررہے ہیںِ، پولیس بھی مکمل کوشش کر رہی ہے، بلاآخر قانون سے کوئی بھاگ نہیں سکتا، کبھی کبھی نتائج میں تاخیر ہوجاتی ہے،چیف جسٹس نے مزيد کہا ہماری ہمدردیاں نقیب اللہ کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔وکيل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتايا کہ حساس اداروں کے ساتھ مناسب روابط نہیں ہوئے،ایک انٹیلی جنس ادارے نے جواب بھی نہیں دیا،چار سال میں راؤ انوار 74 بار دبئی گیا، چيف جسٹس نے ريمارکس ديے کہ پہلی ترجیح راؤ انوار کی حاضری ہے،راؤ انوار جہاں بھی ہوگا ایک دن میں ڈھونڈ نکالیں گے،اپنے چیمبر سے معلوم کروا لیتا ہوں کہی راؤ انوار وہاں ںہ ہو،راؤ انوار زمین میں چلا گیا یا پتہ نہیں کہاں؟چیف جسٹس نے مزيد کہا کہ آج حساس اداروں سے تفصیلات مانگتے ہیں انہوں نے کیا کیا؟؟سب سے پہلے ملزم کا عدالت آنا ضروری ہے،عدالت نے حکم ديا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی سندھ پولیس کی مدد کرے،تمام حساس ادارے راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے فراہم معاونت کی تفصیلات فراہم کریں، آئی جی سندھ نے راؤ انوار کے رابطے سے آگاہ کیا، آگاہ کیا جائے حساس اداروں نے خود کیا اقدامات کیے، عدالت نے ایف آئی اے اور ایف سی سے بھی تفصیلات مانگ لی۔ عدالت نے حکم ديا کہ راؤ انوار نے عدالت کی حکم عدولی کی کیوں ںہ راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، عدالت نے گواہان کی سیکیورٹی کا حکم نامہ تاحکم ثانی برقرار رکھنے کا حکم بھي ديا، وکيل سول سوسائٹي نے کہا کہ ایک تجویز ہے توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری ہو۔عدالت نے عدم پیشی پر گزشتہ سماعت کا حکم نامہ واپس ليتے ہوئے راؤ انوار کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا، کيس کي سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کردی گئي