ٹی وی چینل مالکان کی شکست
Reading Time: 4 minutesپہلے اخبارات تھے، اجاری داری تھی۔ اخبار ہاکر کے ذریعے تقسیم ہوتے تھے مگر ان پڑھ ہاکروں کی بدمعاشی تھی۔ اخباری سیٹھ ان ہاکروں کو سائیکل دے کر خوش کرتے، پھر موٹرسائیکل دینا شروع کر دیے۔ مرضی مگر پھر بھی اخبار پھینکنے والے ہاکر کی ہوتی تھی کہ کس اخبار کو زیادہ بیچنا ہے اور کون سے کو چھپا کر بغیر بیچے واپس سیٹھ کے دفتر بھیج دینا ہے۔ یہ اجارہ داری یا بدمعاشی کسی حد تک آج بھی قائم ہے اور اخباری صنعت میں آنے والے نئے سیٹھ کو جگہ بنانے کیلئے ہاکروں کے ناز نخرے اٹھانا پڑتے ہیں۔ وہ اخباری مالک جو حکومتوں کو بلیک میل کرکے ’آزادی صحافت‘ کے نام پر مال کماتے ہیں ان پڑھ ہاکروں کے ہاتھوں زچ ہو کر ان کے جائز ناجائز مطالبات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اخباری مالکان نے ٹی وی چینلوں کے لائسنس لیے تو گہری سانس لی کہ چلیں اس صنعت میں ان پڑھ ہاکروں کی من مانی سے جان چھوٹی۔ اب ہم لوگوں کو اپنی’صحافت کی آزادی‘ ان کے ڈرائنگ روم اور بیڈ روم میں اظہار رائے کے نام پر براہ راست بیچیں گے۔ اخباری سیٹھ ٹی وی چینل کا مالک بننے کے بعد سفید شلوار کرتے سے ٹائی سوٹ میں آ گیا تھا، مگر یہ پاکستان ہے۔ جیسے ہی ٹی وی والے سیٹھ کا دماغ خراب ہوکر ہواﺅں میں اڑنے لگا، مقابلے میں کیبل آپریٹر کا بددماغ اور جاہل خالد آرائیں مافیا آ گیا۔ بڑے شہروں میں کیبل آپریٹرز نے ٹی وی چینل مالکان کے راتوں کی نیند اس وقت اڑانا شروع کردی جب معلوم ہواکہ فلاں علاقے میں ان کی نشریات معطل کردی گئی ہیں یا ان کا چینل دوسرے نمبر سے ہٹا کر پچاسویں نمبر پر کر دیا گیا ہے۔
چینل کی کمائی اور اشتہار کے نرخ ریٹنگ سے طے ہوتاہے، جب کیبل پر چینل نہیں آئے گا تو ریٹنگ کہاں سے آئے گی۔ خبروں والے چینلوں کی لڑائی صرف نمبروں کی ہے، پہلے کے نمبر پردکھائی دے گا تو لوگ دیکھیں گے، لوگ دیکھیں گے تو ریٹنگ ملے گی، ریٹنگ ملے گی تو اشتہار ملے گا، اور اشتہار کے اچھے نرخ اسی وقت طے ہوں گے جب چینل پہلے پانچ نمبروں پر ہوگا۔ اب اس کھیل میں اصل کردار کیبل آپریٹر کا ہے تو اس نے بڑے چینل سے ایک علاقے میں پہلے نمبروں پر دکھانے کیلئے پانچ سے دس لاکھ لینا شروع کر دیے۔ ہم آپ سمجھنے لگے کہ کیبل آپریٹرز کی کمائی ہمارے چارسوروپے کی فیس ہے مگر ٹی وی چینل مالکان سے پوچھیں تو معلوم ہوکہ پہلا نمبر کس بھاﺅ بکتا ہے۔
کیبل آپریٹرز کا خالد آرائیں مافیا کس قدر طاقتور ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2013 میں سپریم کورٹ کے نوٹس کے باجود ٹی وی چینلوں کو درست نمبروں پر نہ دکھایا گیا۔ حکومت اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تو اس مافیا کے سامنے بے بس ہے مگر عدالتیں بھی ان کے گٹھ جوڑ کو قابو کرنے میں ناکام ہوگئیں ۔ یہ مکمل طور پر ایک تکنیکی کام ہے، ایک وقت میں ایک چینل نظر ہی نہیں آتا اور نوٹس کے بعد وہ ایک گھنٹے کے لیے پہلے نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔ پھر وہ اچانک غائب ہو جاتا ہے اور جب تک آپ شکایت لے کر اتھارٹی کے پاس پہنچتے ہیں کیبل والے دوبارہ اس کو اپنے نمبر پر بحال کر دیتے ہیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں یہ چکر اس لیے نہیں کہ وہاں کیبل سے ڈائریکٹ ٹو ہوم ٹیکنالوجی (ڈی ٹی ایچ) آئے بارہ برس ہوچکے ہیں ۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے نئی ٹیکنالوجی لانے کیلئے کام شروع کیا تو کیبل آپریٹروں کو اپنے کاروبار اور بدمعاشی خطرے میں محسوس ہوئی۔ پہلے پیمرا کو عرصے تک نئی ٹیکنالوجی کی طرف آنے سے روکے رکھا ، پھر کہاکہ ہم بھی ڈی ٹی ایچ لے کر آئیں گے، اور اب کہا کہ اس عمل کو ایک سال کیلئے روک دیا جائے تاکہ ہم اپنے سسٹم کو بہتر کرسکیں۔ پیمرا نے مطالبات ماننے سے انکار کیا تو ہڑتال کردی۔
معاملہ مگر اس سے بڑھ کر نکلا ۔ ٹی وی چینل کے مالکان نے اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ اور پھیلاﺅ کا سوچا۔ پیمرا سے رابطہ کیا اور ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کی بولی میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ ریگولیٹری اتھارٹی نے جواب دیا، چینل مالکان اہلیت نہیں رکھتے، کاروباری اجارہ داری ممنوع ہے۔ چینل مالکان نے عدالت سے رجوع کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے مقدمہ سنا، فیصلہ محفوظ کیا۔ ایک ماہ بعد فیصلہ سنانے کی بجائے ڈی ٹی ایچ کی نیلامی سے ایک دن پہلے اچانک عبوری حکم جاری کر دیا، نیلامی رک گئی ۔ پپمرا والوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، سرمایہ کار اسلام آباد پہنچ گئے مگر بولی روک دی گئی۔ پیمرا کے چیئرمین نے وکیل کو ساتھ لیا، سپریم کورٹ پہنچے، اپیل دائر کی ۔ چیف جسٹس کی فوری سماعت کی استدعا کی۔ ملکی خزانے میں آنے والی رقم اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کامعاملہ درپیش تھا، عدالت نے فوری مقدمہ سنا۔ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو ختم کیا اور بولی کے عمل کو جاری رکھنے کی ہدایت کر دی ۔
اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم عدالت سے باہر نکلے، خوش تھے۔ پوچھا ، اب کیا کہیں گے؟۔ جواب تھا، شکرادا کرتا ہوں، اللہ تعالی ان سیٹھوں سے بہت بڑا ہے۔ چینل مالکان کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے درجنوں کیمروں کے سامنے اپنا موقف دیا تو سوال تھا، آپ کیا سمجھتی ہیں، جن سیٹھوں نے اخبار نکالے، انہی کو ٹی وی چینل کے لائسنس بھی مل گئے ، کیا اب سیٹھوں کو کیبل /ڈی ٹی ایچ کا مالک بھی بنا دیا جائے؟۔ کہنے لگیں، آپ دلائل دے رہے ہیں، میں اپنے دلائل عدالت میں دیتی ہوں، یہاں صرف فیصلہ بتانے آئی ہوں ۔ خبر یہ ہے کہ آج ڈی ٹی ایچ کے تین لائسنس اربوں روپے میں نیلام ہوگئے اور چینل مالکان اور کیبل آپریٹروں کی بدمعاشی کے ایک دور کے خاتمے کا آغاز ہو گیا۔