میڈیائی گدھ
Reading Time: 4 minutesاحساس/اے وحید مراد
ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکر مائیک اٹھاتی ہے، کیمرہ مین پیچھے چل پڑتے ہیں، مسلح افراد کے ہمراہ گھر پر دھاوابولا جاتاہے۔ شواہد پہلے سے پلانٹ کیے جاتے ہیں، اینکرنی گھرمیںموجود خواتین کو گالیاں اور دھمکیاں دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتی ، تھپڑ مارنا بھی اپنے ’صحافتی امور‘ کے طورپرانجام دیتی ہے۔ تھپڑمارنے والی اینکرنی کے پیچھے وردی میں ملبوس پولیس والی حیرت میں ہے کہ اس کے’حصے کا کام‘ بھی کر دیا گیا۔
وہ میڈیائی گدھ جن کی’ آزادی صحافت‘ ہمیشہ اس وقت تک خطرے میں رہتی ہے جب تک کوئی وزیر، مشیر ان کے پاس آکر ’خفیہ فنڈز‘ سے نوازنے کا وعدہ نہ کرلے اس معاملے پر تاحال خاموش ہیں۔ سوشل میڈیا پر شہری پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی سے کارروائی نہ کرنے پر سوال پوچھ رہے ہیں۔ اتھارٹی کہتی ہے اس نے گزشتہ برس ایسے ’چھاپہ مار‘ پروگراموں پر پابندی عائد کی تھی مگر پھر ایک چینل کی انتظامیہ اس حکم کے خلاف سندھ ہائیکورٹ پہنچ گئی۔ فوری ’انصاف فراہمی‘ کیلئے مشہور ہائیکورٹ نے ایسے پروگراموں پر پابندی کا حکم نامہ معطل کیا اور پھر جج صاحب اس کیس کو سماعت کیلئے مقرر کرنا بھول گئے۔ اتھارٹی کہتی ہے اب ہم کیا کریں؟۔
سپریم کورٹ کی عمارت میں ایک نئے رپورٹر نے نوزائیدہ چینل کیلئے بریکنگ نیوز کے حصول کی کوشش میں عدالتی راہداری میں کھڑے سرگوشیاں کرتے وزیر اور وزیرنی کی موبائل سے فوٹیج بنائی۔ وزیر صاحبہ نے روکا اور موبائل لے کر اپنی فوٹیج ضائع کرا دیں کہ سرگوشی کے دوران جب دوافراد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر اس میں رنگ بھرے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ رپورٹر نے معذرت بھی کی۔ معاملہ ختم ہوگیا۔ رپورٹر وہاں سے کچھ آگے سیڑھیوں پر بیٹھے ’سینئرصحافی رہنماﺅں‘ کے پاس آیا اور واقعہ سے آگاہ کیا تو ان کی ’میڈیائی گدھ‘ والی حس ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ بولے، یہ تو سیدھا آزادی صحافت پر حملہ ہے، ایک نے کہا یہیں احتجاج کرتے ہیں، دوسرے نے کہا نہیں، باہر کیمروں کے سامنے چلتے ہیں۔ عدالت عظمی کے باہر شاہراہ دستور پر تماشا لگایا گیا، کچھ میڈیائی گدھ قریب ایستادہ پارلیمان کی عمارت سے دوڑتے نکلے کہ ’رہنمائی کرنے اور لیڈری چمکانے‘ کا یہی موقع ہوتا ہے۔ وزیر، مشیر ویسے ہی پانامہ کی عدالتی کارروائی کی ’اپنی رپورٹنگ‘ کیمروں کے ذریعے براہ راست عوام تک پہنچانے کیلئے بے تاب ہوتے ہیں، آزادی صحافت کے نعروں سے واسطہ پڑا تو ان کی گردنوں کے سریے نے مزید سختی دکھا کر کہا، ہمیں بات کرنے دیں۔ میڈیائی گدھ ناراض ہوکر قریب واقع تھانہ سیکرٹریٹ چلے گئے، رپورٹر کی طرف سے درخواست لکھی اور وزیر صاحبہ پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کر دی۔ اس کے بعد اپنی صحافتی آزادی کو لے کر چینل کے دفتر میں بیٹھ گئے، وزارت اطلاعات کے ان افسروں کو بلایا جو ویسے ہی ان کی جیب میں ہوتے ہیں، تھوڑا سا غصہ دکھایا، الٹی سیدھی تقریریں جھاڑیں، اپنا رعب شوب دکھایا، پھر ایک کی بجائے ’دو وزیرنیوں‘ کو بلایا، بتایا کہ یہ صرف ہم جیسے ’صحافی رہنما‘ ہی ہیں جن کی وجہ سے مسئلہ اتنے آرام سے حل ہو رہا ہے وگرنہ آزادی صحافت کو بہت بڑا خطرہ لاحق تھا۔ گپ شپ اور چائے پینے کے بعد متاثرہ رپورٹر اور وزیر صاحبہ کی ’صلح صفائی‘ والی تصویر بغیر کسی ’معافی نامے‘ کے بنائی گئی اور سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے اس وقت تک جب ’آزادی صحافت‘ کو کہیں اور سے خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔
لاہور میں ایک دھماکے سے آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے، ابھی زخمیوں کی ہسپتال میں مرہم پٹی جاری تھی کہ ٹی وی چینلوں کی اسکرین ایک بار پھر بریکنگ نیوز سے دہک اٹھی، خبر چلی کہ لاہور شہر میں ایک اور دھماکے کی آواز سنی گئی ہے۔ ابھی پنجاب حکومت کے وزیر، مشیر بے چارے پہلے دھماکے سے متعلق اپنے بیانات کو ایک صفحے پر بھی نہیں لاسکے تھے کہ نئی آفت گلے پڑتی دکھائی دی کیونکہ ایک چینل کی خبر کو انتیس دیگر چینل بھی اسی طرح ’کاپی پیسٹ‘ کرکے چل پڑے تھے، کسی نے متعلقہ تھانے، ریسکیو یا مقامی افراد سے رابطہ کرکے تصدیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ ڈرے، سہمے شہر کے لوگ خوف کی چادر میں بکل مار کر ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ گئے۔ جب چینل کی گاڑیاں ’دھماکے کی آواز‘ والی جگہ پہنچیں تو وہاں کچھ نہ پا کر پولیس حکام کو فون کیا۔ جواب آیا، ایسی کوئی اطلاع نہیں۔ پھر کھسیانے ہو کر اپنی غلطی ماننے کی بجائے صرف خبر نشرکر تے رہے کہ پولیس نے دوسرے دھماکے کی تردید کر دی۔(ایسی ڈھٹائی اور بے شرمی صرف ہمارے معاشرے کے ہی پڑھے لکھوں کے حصے میں آئی ہے)۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے غلط خبرچلانے پر تیس ٹی وی چینلوں کو نوٹس بھیجا اور پوچھا کیوں نہ ہرایک کو دس لاکھ جرمانہ کر دیا جائے۔( صرف ایک ٹی وی چینل ’آج نیوز‘ نے غلط خبر نشر نہیں کی)۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سرکاری ٹی وی نے بھی دیکھا کہ سب دوسرے دھماکے کی خبر نشر کر رہے ہیں تو کہا’ لاہور میں دوسرا دھماکہ ہونے کی بھی اطلاع ملی ہے‘۔ اس سے بھی زیادہ افسوس یہ دیکھ کر ہواکہ ’میڈیائی ڈاکٹروں‘ والے ’بڑبولے چینل ‘ پر ’ذمہ دارانہ رپورٹنگ‘ کے نام سے پروگرام ہوا، اور صحافتی اخلاقیات اور اصولوں پر لیکچر دیے گئے۔ اے صحافت، تیرے اس مقام تک پہنچنے پے رونا آیا۔
سوشل میڈیا پر ایسے خبرنگاروں اور میڈیائی ڈاکٹروں کی اصلیت سامنے لاکر مٹی پلید کرنے والے ذہین لوگ خوش ہوتے ہیں۔ مگر دوسری جانب میڈیا کے یہ ڈاکٹر اسی بنیاد پر چینل میں اپنی تنخواہ بڑھالیتے ہیں کہ ’دیکھیں سوشل میڈیا پر ہمیں کتنی گالیاں پڑ رہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہماری ریٹنگ ہے، ہم مشہور ہیں۔