ٹویٹ والی خبر
Reading Time: 5 minutesاحساس / اے وحید مراد
یہ بدترین وقت ہے، مگر یہی بہترین موقع ہے۔
وہ ماﺅزے تنگ تھا جس نے کہا تھا –
’آسمان کے نیچے بدترین قسم کی اتھل پتھل ہے، یہ زبردست صورتحال ہے‘۔
معلوم نہیں یہ اردو اخبارات کے کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کوئی پیدائشی نقص ہے یا ان کی تربیت کا حصہ کہ ان کو ہر نیا آنے والا فوجی سربراہ جانے والے سے زیادہ بہتر اور ہر سول حکومت، وزیراعظم گزرے ہوئے سے بھی گیا گزرا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مگر تعصب گھٹی میں پلایا جاتا ہے کہ انگریزی میں لکھنے والے کمال کے کالم نگار ایاز امیر بھی حالیہ فوجی ٹوئٹ پر نوازشریف کے خلاف میدان میں آئے ہیں۔ اگر کوئی غیرجانبدارانہ تجزیہ کرے تو ایازامیر نے پاکستان جیسے ملک میں بدترین مارشل لا کے ادوار میں انتہائی جرات مندانہ کالم لکھے۔ ضیاءالحق کا دور ہماری یادداشت میں نہیں مگر پرویز مشرف کی حکومت اور پالیسیوں پر سخت تنقید کرنے اور چھاپنے پر ایازامیر اور ڈان اخبار تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔
دوہزار ایک یا دو تھا، ایازامیر کا ایک کالم شائع ہوا، آغاز کچھ ایسے جملے سے تھا –
’کون کہتا ہے پاکستان میں ترقی نہیں ہوتی، جس نے آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ کرنا ہو، اسلام آباد کے آبپارہ میں آئی ایس آئی کے صدر دفتر کے اطراف چکر کاٹ لے، راتوں رات سڑکیں نئی ہوگئی ہیں‘۔
مگر افسوس ایسا جرات مند شخص عمر کے آخری حصے میں پہلے نوازشریف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں پہنچا اور پھر ٹکٹ نہ ملنے پر پانچ برس سے حکومت اور نوازشریف کے بغض میں درست تجزیے کی صلاحیت کھوبیٹھا ہے۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔
ہم جیسے طالب علم عمررسیدہ دانش وروں کے تعصب سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہم جو بہترین انگریزی پڑھنے اور سمجھنے کیلئے ’امیرانہ کالم‘ کے دوران بیس بار ڈکشنری کھولتے تھے، اب کالم کا صفحہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ بات اب صرف اردو اخبارات کے کالم نگاروں کی نہیں رہی، ٹی وی چینل نے انگریزی میں لکھنے والوں کو جب تجزیہ کار بننے کا موقع دیا تو وہ اسی رو میں بہہ گئے جس طرح ریٹائرڈ فوجی دانش ور کہتے ہیں کہ ’قوم سپہ سالار کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘اور قوم اس تجزیے پر حیرت سے ان کو دیکھتی رہتی ہے۔
پانامہ پیپرز کیس سماعت اور فیصلے کے بعد ابھی تجزیہ فروش مہم جوئی میں مصروف تھے کہ ڈان اخبار کی خبر کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر وزیراعظم کے دفتر نےعمل کی منظوری دیدی۔ ایک شور اٹھا کہ یہ کیا ہے، کیوں اور کیسے ہے۔ پھر آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ راول پنڈی سے جرنیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ داغ دیا۔ جماعت دہم میں سیکھی گئی انگریزی نے وہ کمال دکھایا کہ مارشل لا اور فوجی ٹرکوں کو وزیراعظم ہاﺅس کی طرف بڑھتے دیکھنے والوں کیلئے بھی ماضی کے برعکس نیا منظر تھا۔ میڈیائی ڈاکٹروں کو اپنے خواب دن کی روشنی میں پورے ہوتے نظر آئے اور ٹی وی اسکرینیں بریکنگ نیوز سے لال ہوگئیں۔
معاملے کو سمجھنا اتنا مشکل ہرگز نہیں۔ اگر ماضی قریب کے کچھ واقعات پر غور کریں تو ’ڈان لیکس‘ نامی اس بلا کو آسانی سے سمجھ سکیں گے جس کے ذریعے بظاہر حکومت میں شامل سیاستدانوں کی گردن ناپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافی حامد میر پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ردعمل میں ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو نشانے پر لیا تھا۔ چھاﺅنیوں میں جنگ، دی نیوز اخبارات کا داخلہ اور جیو نیوز کی نشریات بند کردی گئی تھیں۔ ایک پروگرام کو سامنے رکھ کر میرشکیل کے خلاف ملک کے ہرکونے میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ سب سے بڑے میڈیا گروپ کا یہ حال دیکھا تو دیگر مالکان نے فورا ماتھے ٹیک دیے اور ان گناہوں کی بھی معافی مانگ لی جو سرزد نہیں ہوئے تھے۔ پاکستان میں صحافت پہلے بھی آزاد نہ تھی مگر حامد میر قاتلانہ حملے کے بعد مکمل طور پر یرغمال ہوگئی۔ اب جو بگ باس کہتا ہے وہی چلتا ہے، تین برس شکریہ راحیل شریف کا ورد اسی وجہ سے ہر زبان پر جاری رہا۔ الیکٹرانک میڈیا مٹھی میں آیا تو ہرطرف سکون ہوگیا، سوشل میڈیا والے ویسے ہی ایک گمنام ٹیلی فون کال یا برقی پیغام کی مار ہوتے ہیں۔
حکومت ہمیشہ سے ہی انگوٹھے تلے ہوتی ہے، جہاں کہیں گڑ بڑ کرنے لگتی ہے تو دھرنے باز میدان میں آنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور پھر پرویزمشرف ٹی وی پر کہہ دیتے ہیں کہ ان کو باہر بھجوانے کا فیصلہ جنرل راحیل کا تھا۔ سول حکومت کا بھرم قائم رہتا تھا کہ ایسی باتیں ریٹائرڈ فوجی افسران کرتے ہیں۔ اس بار وہ بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ بیس کروڑ لوگوں کی نمائندگی جمہوری نظام میں ایک منتخب وزیراعظم ہی کرتا ہے جس کے فیصلے کو ایک ٹویٹ کے ذریعے مسترد کر دیا گیا اور جتنا پروپیگنڈہ ’ڈان لیکس‘ کے ذریعے فوج کی بدنامی کا کیا گیا تھا اس سے زیادہ ’مشہوری‘ ریاست پاکستان کی اس ایک ’ری جیکٹ‘ لفظ نے پوری دنیا میں بطور بنانا ری پبلک کے کردی۔ معلوم نہیں اس ملک میں کوئی سوچتا بھی ہے، کیا فوجی ٹویٹ سے ملک اور فوج بطور ادارہ زیادہ بدنام ہوئے یا ڈان اخبار کی خبر سے’شہرت‘ دور تک پھیلی تھی؟۔
ڈان اخبار کی خبر میں کیا تھا؟ صرف یہی نا کہ سول حکومت کے ایک عہدیدار نے ماتحت ادارے کے افسر کو وہی کچھ کہہ دیا جو دنیا بھرمیں قائم پاکستانی سفارتخانے رپورٹ دیتے ہیں۔ کیا تکلیف اس بات سے ہوئی کہ بند کمرے میں کہی گئی بات قوم تک کیوں پہنچائی گئی؟۔ عوام کو یہ کیوں بتایا گیا کہ آپ کے منتخب کیے گئے نمائندوں میں اتنی ہمت آگئی ہے کہ کھل کر ’اچھے برے‘ کے کھیل کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ حکومت نے ڈان اخبار میں خبر اس لیے بھی چھپوائی کہ ’ٹویٹ‘ کا براہ راست جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتی۔ خبر چھ اکتوبر دوہزار سولہ کو شائع ہوئی اور اس عرصہ قبل ’ٹویٹ‘ کے ذریعے قوم کو بتایا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے میں صرف فوجی قیادت مخلص ہے اور جہاں رکاوٹ پیش آ رہی ہے اس کی وجہ سول حکومت اورادارے ہیں۔
خبر پر سخت ردعمل کا مقصد ’ذرائع‘ کو ہمیشہ کیلئے سبق سکھانا ہے۔ حامد میر پر حملے کی خبر کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور ٹی وی چینل مالکان کوخاموش کرا دیا گیا تھا اور اب وہ کبھی ویسی خبر چلانے کی ہمت نہیں کریں گے۔ رہ گئے تھے صحافی، تو ان کو خبر دینے والے ’ذرائع‘ کو نام نہاد ڈان لیکس کو بنیاد بنا کر ہمیشہ کیلئے ڈرا دیا جائے گا، پھر صحافی کے پاس وہی خبر ہوگی جو ادارے’ٹویٹ‘ کے ذریعے جاری کریں گے۔ پرویزرشید کو نشان عبرت بنانے کے بعد ہر وزیر، مشیر اور سرکاری افسر صحافی کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل لے گا۔
پاکستان کا میڈیا کس کے کنٹرول میں ہے، یہ جاننا ہے تو آج دو مئی کے دن کسی بھی ٹی وی چینل پر یا اخبار میں چھ برس قبل ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کا کوئی ذکر تلاش کرلیں۔ کیاڈان اخبار کی خبر قومی سلامتی پراس سے بڑا حملہ تھا جو سنہ دوہزار گیارہ میں امریکا کے دو ہیلی کاپٹروں نے سرحد کے دوسو کلومیٹر اندر آکرملک کی اعلی فوجی تربیت گاہ کاکول کے قریب کیاتھا؟۔ سابق وزیراعظم یوسف گیلانی نے پوچھا تھاکہ ’اسامہ کس کے ویزے پر ایبٹ آباد میں رہائش پذیرتھا‘۔ پھر حیدرگیلانی تین برس بعد افغانستان سے بازیاب کرایاگیا۔یقین جانیے، آج دومئی کو بھی مشہورزمانہ میڈیائی ڈاکٹر اپنے ٹاک شوز میں’ڈان لیکس‘ کی ہی بات کریں گے۔ کون سا ایبٹ آباد آپریشن بھائی؟ کون سی قومی سلامتی پرحملہ؟۔ اصل حملہ تو خبر سے ہوتاہے ہیلی کاپٹرز تو امریکی تھے۔