سندھ میں 90 فیصد مقدمات میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر سپریم کورٹ کا نوٹس
پاکستان کی سُپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں 90 فیصد مقدمات میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی جاتی ہے جس سے شہریوں کے کیسز خراب اور اصل ملزم بری ہو رہے ہیں۔
عدالت عظمٰی کے تین رُکنی بینچ نے قرار دیا کہ سندھ میں پولیس طاقتور افراد کے اثر و رسوخ میں ہے اور اُن کی اجازت کے بغیر کسی بھی مقدمے کا اندراج ممکن نہیں ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شہزاد احمد پر مشتمل تین رُکنی بینچ نے سندھ میں قتل کے دو الگ الگ مقدمات میں ایف آئی آر کے اندراج میں دو، اور چار دن کی تاخیر پر صوبے کی پولیس کے سربراہ کو طلب کیا۔
سیتا رام اور محمد الیاس کی جانب سے سزائے موت کے فیصلوں پر اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔
عدالت میں سندھ پولیس کے سربراہ (آئی جی) غلام نبی میمن اور صوبے کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
جسٹس شہزاد احمد نے آئی جی سندھ سے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں کسی صورت کوئی تاخیر قابل قبول نہیں، یہ کہنا کہ مدعی کفن دفن میں مصروف تھے کوئی جواز نہیں۔ یہ صرف سندھ میں ہو رہا ہے، تاخیر سے لوگوں کے مقدمات خراب کر دیے گئے ہیں۔ سیتا رام کے کیس میں فون پر رپٹ درج کر لی گئی، اس میں مدعی کا نام تھا اور نہ ملزم کا۔ پھر دو دن کی تاخیر سے ایف آئی آر لکھی گئی اور مدعی کا نام شامل کیا گیا۔
بتایا گیا کہ ایس ایچ او تفتیش کر رہے تھے اور جب ایس ایس پی کہتا ہے تب مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
جسٹس شہزاد احمد نے آئی جی سے کہا کہ ‘انہتائی معذرت کے ساتھ، اس ایف آئی آر کے اندراج کے لیے بھی اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایس ایس پی پہلے اپنے علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے پوچھتا ہے، اگر وہ اجازت دیں تب ایس ایچ او کو کہا جاتا ہے مقدمہ درج کر لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس تاخیر کی وجہ سے مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے اور ملزم چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ جب عدالت قانون کو دیکھتی ہے تو یہ چیزیں کیس میں سامنے آتی ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے سندھ پولیس کے سربراہ کو مخاطب کر کے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے اس چیز کو روکیں۔ ایف آئی آر کا مطلب فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ہے، سندھ میں اس کو پھر ایل آئی آر کر دیں یعنی لاسٹ انفارمیشن رپورٹ۔ ‘آپ پورے سندھ کے آئی جی ہیں اس حوالے سے کوئی ہدایات جاری کریں کہ ایف آئی آر موقع پر ہی کاٹی جائے۔’
بینچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا پولیس کے محکمے یا اس کو سربراہ کو اس کوتاہی یا قانونی سقم کے بارے میں سندھ کے محکمہ پراسیکیوشن نے کبھی بتایا؟
سندھ پولیس کے سربراہ نے عدالتی بینچ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ‘جو آپ کی فیلنگز ہیں وہی فیلنگز میری بھی ہیں۔ مجھے ابھی ایک سال ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک سال سندھ پولیس کا سربراہ رہ چکا ہوں۔ یہ معاملہ میری ترجیحات میں شامل ہے۔’
آئی جی کا کہنا تھا کہ ‘سندھ میں پہلے ایک ٹرینڈ تھا کہ جس تھانے میں مقدمات زیادہ درج ہوتے تو کرائم ریٹ کی وجہ سے ایس ایس پی اس کے ایس ایچ او کو شوکاز نوٹس جاری کرتا جس کی وجہ سے ایف آئی آر درج کرانے میں شہریوں کو مشکلات پیش آتیں، کیونکہ کوئی بھی پولیس افسر شوکاز نوٹس سے بچنا چاہتا ہے۔’
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ‘میں نے افسران سے کہا کہ کسی ماتحت افسر کو سزا دینی ہے تو ایف آئی آر درج نہ کرنے پر دیں۔ اور جب قانون میں سزا موجود ہے کہ اہلکار کو نااہلی پر ملازمت سے برطرف کیا جا سکتا ہے تو پھر شوکاز سے کیوں ڈرایا جائے۔’
آئی جی سندھ کے مطابق انہوں نے چار ایس ایچ اوز کو ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر پر ہٹایا۔
سندھ پولیس کے سربراہ نے تسلیم کیا کہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ‘میں یہ بات مانتا ہوں کہ جو میں یہاں کہہ رہا ہوں زمین پر حقائق اس سے مختلف ہیں۔’
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘ہم آپ کی باتوں کی ستائش کرتے ہیں، صوبے کی پراسیکیوشن برانچ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے کو دیکھے کہ اتنے مقدمات میں ملزم کیوں اور کیسے بری ہو رہے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ ‘سوسائٹی میں ایلیٹ ازم ہے، جو جتنا پاور فُل ہے وہ اتنا ہی قانون کی پکڑ سے باہر ہے۔ غریب کے لیے ریاست موجود ہی نہیں۔’
بینچ کے سربراہ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے پوچھا کہ ‘آپ نے کبھی پولیس کے سربراہ کو لکھا کہ بے بس آدمی کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی؟ اگر آپ کی ایسی کوئی رپورٹ ہے تو جو آئی جی کو بھیجی ہو تو عدالت میں بھی جمع کرا دیں۔’
جسٹس شہزاد احمد نے آئی جی اور پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ ‘ہمارے سامنے یہ آج کے دو مقدمات ہیں جن میں ایک میں دو دن اور دوسرے میں چار دن کی تاخیر سے ایف آئی آر درج کی گئی، اگر کوئی وضاحت ہے تو دے دیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘یہ سنہ 2018 اور 2020 کے مقدمات ہیں۔ یہ تو کوئی وجہ نہیں کہ مدعی کفن دفن میں مصروف تھے۔ سندھ پولیس کی تفتیش کا معیار بہت خراب ہے۔ کسی بھی کیس میں ڈی این اے ہی نہیں ہوتا۔ فنگر پرنٹس نہیں لیے جاتے بلکہ اس کی کوشش تک نہیں کی جاتی۔ معذرت کے ساتھ پولیس کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش پر کوئی توجہ ہی نہیں۔ 90 فیصد مقدمات میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہوئی ہے اور یہ قتل کے مقدمات ہیں۔’
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘یہ بینچ گزشتہ دو ماہ سے فوجداری مقدمات کی سماعت کر رہا ہے، اور سندھ کے تمام مقدمات میں یہ معاملہ سامنے آیا ہے اس لیے پولیس کے سربراہ کو طلب کیا ہے۔ یہ بہت ڈسٹربنگ ہے۔ اور اس طرح کے مقدمات میں غریب ملزم اپنے لیے وکیل تک نہیں کر سکتے۔’
انہوں نے کہا کہ غریب اور عام شہری ریاست کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ جہاں ترجیحات ہوں وہاں لوگوں کو اُٹھا لیتے ہیں۔ یہ حقائق ہیں اس لیے ان سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ ‘گزشتہ چار ماہ میں ایک بھی کیس ایسا نہیں آیا جس میں بروقت ایف آئی آر اور درست تفتیش ہوئی ہو۔ سندھ میں کرمنل جسٹس سسٹم ناکام ہو چکا ہے۔’
جسٹس شہزاد احمد نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ میں سندھ سے آنے والے فوجداری مقدمات میں کسی ایک بھی کیس میں فنگر پرنٹس نہیں لیے گئے، دنیا فرانزک سائنس میں کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کہاں بیٹھے ہیں۔’
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ایس ایچ او جائے وقوعہ پر مقتول کی لاش دیکھتا ہے مگر مقدمہ درج نہیں کرتا۔
بینچ کے سربراہ نے آئی جی سے کہا کہ قانون میں مدعی کا مقدمے کے اندراج کے لیے آنا ضروری نہیں، سیکشن 154 میں واضح ہے کہ جرم ہونے پر مقدمہ درج ہوگا، غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں بھی مدعی نہیں ملتے، اس لیے ریاست نے فوری ایف آئی آر درج کرنا ہوتی ہے۔
عدالت کے پوچھنے پر سندھ پولیس کے سربراہ نے کہا کہ ‘قتل کے مقدمے میں تفتیش کے لیے پولیس کو ایک لاکھ روپے کا بجٹ ملتا ہے۔ ہم نے حکومت سے پروپوزل منظور کرایا اور بجٹ میں سندھ پولیس کو 60 کروڑ روپے ملے۔’
عدالت نے سندھ پولیس کے سربراہ کو ہدایت کی سپریم کورٹ میں گزشتہ چار ماہ میں ان کے صوبے سے آنے والے کرمنل کیسز کا سروے کرا لیں تفتیش کا معیاری ہونا آپ کے سامنے آ جائے گا۔ ‘ملزم اس لیے رہا ہو جاتے ہیں کہ عام شہری کے لیے یہ نظام مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔’
عدالت نے پولیس کے سربراہ سے دس دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔