سپریم کورٹ سے مقدمات کی براہ راست نشریات کیوں بند ہوئیں؟
پاکستان کی سپریم کورٹ سے سُنی اتحاد کونسل کے وکیل نے استدعا کی ہے کہ جس طرح مخصوص نشستوں کے بنیادی مقدمے کی سماعتوں کو عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی گئی اب اس فیصلے پر دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت بھی ملک بھر کو لائیو سٹریمنگ سے دکھائی جائے۔
بدھ کو حامد خان ایڈووکیٹ نے 11 رُکنی بینچ کے سامنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اُنہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کی تشکیل کی درخواست کی تھی جو اس نظرثانی کیس کو سُنے، مگر اُس پر رجسٹرار کے دفتر نے اعتراض لگا دیا کہ نہیں، چیف جسٹس اس بینچ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ میری دلیل ہے کہ قانون کے مطابق رجسٹرار دفتر یہ اعتراض نہیں کر سکتا، یہ معاملہ عدالت ہی دیکھ کر فیصلہ دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس اعتراض پر اپیل دائر کریں جب آئے گی تو دیکھ لیں گے۔
وکیل حامد نے بتایا کہ اپیل دائر کرنے گئے وہ وصول ہی نہیں کر رہے کہ پہلے اس پیراگراف کو ہٹائیں تب آئیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس معاملے کو سماعت کے بعد دیکھ لیتے ہیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کے علاوہ اُن کی دو درخواستیں ہیں۔ گیارہ رُکنی بینچ پر اعتراض کے ساتھ دوسری درخواست کیس کو براہ راست نشر کرنے کی استدعا والی ہے۔
انہوں نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رُکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ جب اصل مقدمہ سُنا جا رہا تھا تب تمام سماعتیں براہ راست نشر کی گئیں، یہ نشریات گزشتہ برس 7, 13, 19, 20 اور 21 مئی کو ہوئیں۔ اس کے بعد یہ مقدمہ تین اور چار جون کو سنا گیا۔ پھر اگلی سماعتیں 24, 25 اور 27 جون کو کی گئیں۔
جب 12 جولائی کو فیصلہ آیا تب بھی کورٹ سے لائیو نشر کیا گیا۔ اس طرح تمام سماعتوں میں پاکستان کے شہریوں نے شرکت کی۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ اب ان نظرثانی درخواستوں کی سماعت بھی براہ راست نشر کی جائے۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سماعت براہ راست نشر کرنے پر عدالت کے دو فیصلے موجود ہیں۔ سنہ 2021 میں سپریم کورٹ کے دستیاب دس ججز پر مشتمل فُل کورٹ نے جسٹس قاضی عیسٰی بنام صدر مملکت کیس میں فیصلہ دیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ براہ راست نشریات کی وہ درخواست منظور نہیں کی گئی تھی۔
وکیل کے مطابق اس درخواست کو مسترد بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ جزوی طور پر منظور ہوئی تھی، تقریبا پانچ پانچ ججز کے تناسب سے فیصلہ تھا کیونکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ نوٹ بھی لکھا تھا۔
حامد خان نے کہا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں براہ راست سماعت کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا اور ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ اس کو عدالت انتظامی طور پر دیکھ سکتی ہے کیونکہ فُل کورٹ اجلاس میں تمام ججز اس کے بارے میں مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت براہ راست دکھانے کے لیے سابق چیف جسٹس قاضی فائز نے درخواست دائر کی تھی جو اِن سب کا محرک بنی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اس پر کہا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے فوری بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا، انتظامی فل کورٹ اجلاس کا ایجنڈا یہ تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس براہ راست دکھانا چاہیے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق اُس وقت فل اجلاس میں اکثریت نے رائے دی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جائی۔ کئی ججز نے عدالتی کارروائی کی براہ راست کی مخالفت میں بھی رائے دی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس میں طے ہوا کہ پہلے مرحلے میں عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات بطور پائلٹ پراجیکٹ دکھائی جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ میرے اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی کو زمہ داری سونپی گئی کہ براہ راست نشریات کا طریقہ کار طے کیا جائے، کمیٹی نے تمام کمرہ عدالتوں میں براہ راست نشریات کے بندوبست کے لیے تجاویز دیں۔
اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی بھی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں براہ راست دکھائی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ براہ راست عدالتی کارروائی سے متعلق دو رکنی کمیٹی کی تجاویز کی فل کورٹ انتظامی اجلاس سے منظوری لی جانا تھی تاکہ پائلٹ پراجیکٹ کو آگے بڑھایا جائے۔ مگر آج تک عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کے لیے فل کورٹ اجلاس میں معاملہ زیر غور نہیں آیا، اب بھی وہ پائلٹ پروجیکٹ ہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک یوٹیوب چینل بھی بنایا، یوٹیوب چینل سے باقی پرائیویٹ ٹی وی چینلز بھی نشریات دکھاتے رہے، پی ٹی وی کے ذریعے بھی سماعت براہ راست دکھائی گئی تھی عدالت میں چار کیمرے لگائے گئے تھے۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ کم از کم پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر منظوری کی مثال تو موجود ہے، اسی کے تحت نشریات دکھائی جا سکتی ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس کیس کے فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس پر عمل درآمد ہو چکا ہے، اس لیے اب حوالہ دینے کی ضرورت نہیں۔