ایجنسی والے اینکر کو ماموں بنا گئے؟
Reading Time: 2 minutesکہتے ہیں کہ وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھے کچھ لوگ جب ایک مخصوص ٹی وی چینل پر چار ’اعلی پائے‘ کے اینکروں کو نمودار ہوتے دیکھتے ہیں تو آپس میں گپ لگاتے ہیں کہ کون اس ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلائے گا؟۔ پھر ان میں سے ایک دوست ان چار میں سے ایک اینکر کو کوئی پیغام واٹس ایپ کرتاہے اور ساتھ ہی کوئی جعلی قسم کا نوٹی فیکیشن تصویر بناکر ارسال کردیتاہے، چاروں میں سے ایک اینکر فورا کہتا ہے کہ اس کے پاس یہ بڑی خبر آگئی ہے، اس طرح وہ جعلی پیغام نشر ہو جاتا ہے، اور وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھے دوست ایک دوسرے سے کوئی نہ کوئی شرط جیت جاتے ہیں اورپھر آپس میں قہقہے لگاتے شام گزارتے ہیں۔
یہی کچھ بظاہر آج ایک اینکر کے ساتھ ’ایجنسی‘ والوں نے بھی کیا جب اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس دائر کرنے کی خبر نشر کی گئی، اس خبر پر ملک بھر کے ’اعلی پائے‘ کے صحافیوں نے تبصرے بھی کر دیے جن میں حامد میر کا ٹوئٹر تبصرہ بھی شامل ہے۔ عمران خان تو اسی انتظار میں ہوتے ہیں انہوں نے بھی ٹوئٹ کر دیے۔
جسٹس کھوسہ کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی خبر ملک کے چار بڑے ٹی وی چینلز نے نشر کی لیکن اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسا کوئی ریفرنس دائر نہیں کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریفرنس ابھی تک صرف ’واٹس ایپ‘ کے گروپوں میں دائر ہواہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اس ریفرنس سے لاعلمی ظاہر کی گئی ہے۔ ریفرنس کا صفحہ نمبر دو بھی غائب ہے۔
واٹس ایپ ریفرنس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پاناما کیس کے فیصلے کے ایک مخصوص پیرا گراف کو بنیاد بناتے ہوئے جسٹس کھوسہ کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کی استدعا کی ہے۔ ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ‘پاناما پیپرز کیس کے بیس اپریل فیصلے کے ایک پیراگراف میں جسٹس کھوسہ کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا وفادار قرار دیا گیا جس سے اسپیکر قومی اسمبلی کی ساکھ متاثر ہوئی’۔ جسٹس کھوسہ کے خلاف اس ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ‘جج کے اسپیکر قومی اسمبلی سے متعلق الفاظ سے اسپیکر آفس کی توہین ہوئی کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی کا دفتر کوئی تفتیشی ادارہ نہیں’۔ ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘جسٹس کھوسہ کے اس پیراگراف نے کئی منفی سوالات اٹھا دیے جبکہ اس سے ذاتی عناد، جانبداری اور پارلیمنٹ کی خودمختاری پر ضرب لگانے کا تاثر بھی ملتا ہے’۔ ریفرنس کے صفحہ تین کے مطابق ‘جسٹس کھوسہ مستقبل میں چیف جسٹس پاکستان کا حلف لیں گے اور اپنے عہدے پر برقرار رہنے سے معزز جج صاحب کو مزید متنازع فیصلوں کا موقع ملے گا جس کے اثرات پاکستانی سیاست پر مرتب ہوں گئے لہٰذا انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا جائے’۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلز نے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی خبرنشر کی اور کسی نے تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ سپریم کورٹ میںقائم سپریم جوڈیشل کونسل سے منسلک حکام ایسے کسی بھی ریفرنس کے دائر ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ واضح رہے کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے ہیں جبکہ چیف جسٹس اس کونسل کے چیئرمین ہیں جو ججوں کے خلاف شکایات کو سنتی ہے۔ کونسل میں آئین کے مطابق کل پانچ جج بیٹھتے ہیں جن میں چیف جسٹس کے علاوہ عدالت عظمت کے دو سینئر جج جبکہ دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی اس کے ارکان میں شامل ہیں۔