سپریم کورٹ میں افغان مہاجرین کی کہانی
Reading Time: 3 minutesجہانزیب عباسی
مقدمہ تو عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کا تھا۔ ہائیکورٹ نے افغان مہاجرین کی درخواست پرفیصلہ دیاتھاکہ پوری ایک بستی کیلئے بجلی کا ایک میٹر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر گھر کیلئے الگ میٹر فراہم کیاجائے تاکہ جو گھرانا جتنی بجلی استعمال کرتاہے اس کے مطابق بل ادا کرے۔ ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر مگربجلی کے محکمے کے حکام نے عمل نہ کیاتو اپیل سپریم کورٹ میں آگئی۔
جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے مقدمہ سننا شروع کیا تو جج صاحب نے افغان مہاجرین کے بارے میں اپنے پرانے فیصلے یاد کرادیے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ جب وہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کرنے کا فیصلہ دیا تھا اور متعلقہ حکام کو اس کیلئے پالیسی وضح کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فیصلے کے بعد اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے وفود آئے، ان تمام افراد سے یہی کہاکہ مجھ سے قانون کی بات کریں، سیاسی معاملے اور انسانی ہمدردی کا عدالت سے تعلق نہیں ہوتا۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوا مگر پھر کچھ لوگوں کوجب تکلیف ہوئی تو مہاجرین کو بھگایا جانے لگا۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا مگر جب مہاجرین ان کے اندر گھس گئے توپھر نکالے گئے۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ پہلے موبائل فون سمیں فٹ پاتھ پرفروخت ہوتی تھیں، میں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے ذریعے بائیومیٹرک تصدیق کا حکم دیا لیکن اس فیصلے پر بھی عمل نہیں ہوا۔ دوبرس بعد جب پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو تب حکام نے سموں کی بائیومیٹرک تصدیق کا عمل شروع کیا۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا، عدالتی فیصلوں اور قوانین میں دانش ہوتی ہے۔
وکیل نے کہاکہ افغان مہاجرین کے لگ بھگ پچاس کیمپ ہیں اور بجلی کے محکمے کے حکام نے ہر بستی یا کیمپ میں صرف ایک میٹر لگایا ہے جبکہ کوئی ایک گھر اے سی استعمال کرتاہے جبکہ کسی گھر میں صرف بلب جلتاہے مگر وصولی سب سے برابر کی جاتی ہے۔ اس پر جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہاں تو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نام بھی عجیب رکھے گئے ہیں، ایک کانام تو ڈسکو ہے۔ اسی طرح ایک سرکاری ادارے کا نام کسی اداکارہ کے نام پر ہے مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا۔ اس ملک میں پی ایچ ڈی اسکالر کو تو دولاکھ روپے ملتے ہیں مگر بجلی کمپنی کا اعلی افسر سولہ لاکھ ماہانہ لیتاہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ بجلی کا یونٹ چودہ سے سولہ روپے ہوا تو چوری بھی شروع ہوئی۔ غریب کی پہنچ سے باہر ہوئی تو اس نے کنڈے ڈال دیے۔ اب چوری کانام گردشی قرضہ رکھ دیا گیا ہے، ایسا قرضہ جو صارف کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ نیپرا خود مختار اتھارٹی کہلاتاہے مگر عمل درآمد حکومت کی پالیسی پرکرتا ہے۔
جسٹس دوست محمد نے ایک بار پھر افغان مہاجرین کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ مہاجرین اس لیے بھی پاکستان میں مستقل رہائش پذیر ہیں کہ ہمیں واشنگٹن سے کچھ امداد بھی مل رہی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے حکم دیاکہ افغان مہاجرین کی بستیوں کے ہرگھر میں انفرادی بجلی کا میٹر لگایا جائے، اور چونکہ پاکستان اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق کنونشن کا دستخطی ہے اس لیے ان مہاجرین سے بھی بجلی کا وہی نرخ وصول کیاجائے جو عام پاکستانی شہری سے لیا جاتاہے۔ بجلی کا الگ نرخ وصول کرنے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، اگر حکومت چاہے تو مہاجرین کی بجلی قیمت کیلئے الگ قانون بناسکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی افغان مہاجر کی جانب سے بجلی کنکشن کی درخواست آتی ہے تو متعلقہ محکمہ اس کو قانون کے مطابق دیکھ کر بجلی میٹر فراہم کرے۔