عتیقہ اوڈھو سپریم کورٹ میں
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ائرپورٹ پر پکڑی گئی شراب کی دو بوتلوں کے مقدمے میں اداکارہ عتیقہ اوڈھو سپریم کورٹ پہنچیں۔ جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شراب پکڑنے کا مقدمہ ختم کرانے کی درخواست کی سماعت کی۔ وکیل علی ظفر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت عوامی مفاد میں لیے گئے نوٹس کی وجہ سے ایسے مقدمات بنے، ان میں سے دو مقدمات زیادہ مشہور ہوئے جن میں سے ایک یہ ہے جبکہ دوسرا چینی کی قیمت بڑھنے کا ازخود نوٹس تھا۔ وکیل نے کہاکہ ایک اہم نوعیت کا مقدمہ ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ بڑی عدالت کے ازخود نوٹس کے بعد ماتحت عدالتیں کیس کا فیصلہ کرنے سے کتراتی ہیں اس لیے سپریم کورٹ ہی میرٹ پرسنے۔ وکیل نے کہاکہ ماتحت عدالتمیں کیس کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔عدالت سے مقدمہ خارج کرنے اور ایف آئی آر ختم کرنے کی استدعا کی مگر ہماری درخواست مسترد کردی گئی جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماتحت عدالت نے مقدمہ ختم کرنے کی آپ کی درخواست خارج کی مگر وجوہات نہیں بتائیں؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ٹرائل کورٹ میںتمام گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں ۔ وکیل نے کہاکہ جی آٹھ افراد کے ریکارڈ بیان ہو چکے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ شراب یا ممنوعہ اشیاء کو دیکھنا کسٹم حکام کاکام ہے، انہوں نے اندرون ملک فلائٹ میں کیسے مداخلت کی؟۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اگر کوئی چیز برآمد ہوئی بھی تو پولیس کو بلانا چاہیے تھا، وکیل نے کہاکہ پہلے ائرپورٹ سیکورٹی نے روکا تھا پھر کسٹم حکام کو بلایا گیا۔ وکیل نے کہاکہ مجسٹریٹ کے سامنے کیس کی سماعت کو معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔ایڈووکیٹ علی ظفر نے کہاکہ سارے گواہان کے بیان ریکارڈ ہو چکے ہیں، صرف عتیقہ اوڈھو کا بیان باقی ہے، ٹرائل کورٹ میں ہمارے اٹھائے گئے قانونی نکات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ وکیل نے کہاکہ عدالت نے دوران سماعت از خود نوٹس کا فیصلہ طلب کیا، ہمیں وہ فیصلہ نہیں مل رہا۔ مقدمہ دوہزار گیارہ سے زیرسماعت ہے، سابق چیف جسٹس کے ازخود نوٹس سے کارروائی شروع ہوئی تھی۔ کیس خارج کرنے کیلئے ہائیکورٹ میں اپیل کی مگر درخواست مسترد ہونے پر یہاں آئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے عتیقہ اوڈھو کیخلاف ٹرائل کورٹ میں ہونے والی کاروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے سماعت دس روز کیلئے ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور کسٹم کے محکمے کو نوٹس جاری کردیے، سپریم کورٹ نے کہاکہ ٹرائل کورٹ اس وقت تک حتمی حکم جاری نہ کرے جب تک مقدمہ ختم کرنے کی درخواست پر عدالت عظمی کیس سن نہ لے۔