ہرگز حیران نہیں ہوا
Reading Time: 4 minutesنوازشریف کے مخالفین کو سو فیصد یقین تھا کہ ان کے لندن پہنچ جانے کے بعد پورے شریف خاندان پر ”جان بچی سو لاکھوں پائے“ والی کیفیت طاری ہوچکی ہے۔ وطن لوٹنے کے بعد احتساب عدالتوں کے روبرو خجل خوار ہونے کے بجائے نوازشریف اور ان کے بچے اب لندن میں مقیم رہ کر ہی اپنی جائیدادوں کو ریاست پاکستان کی پہنچ سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
دریں اثناءپاکستان میں موجود ان ہی کے سگے چھوٹے بھائی کسی نہ کسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھال کر اپنے دوست چودھری نثار علی خان کی فراست سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل کروانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو اس دوران ”ہمیشہ کےلئے“ ختم کیا جائے گا۔ اس کی بدولت نئے انتخابات میں ”اداروں سے غلط فہمیاں“ دور کرنے کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے والی نواز لیگ سادہ اکثریت نہ سہی تک کم از کم سنگل لارجسٹ پارٹی کا مقام ضرور حاصل کرلے گی۔ وہ ا گر مرکز میں مخلوط حکومت بنانے میں ناکام رہی تو پنجاب کسی اور جماعت کی گرفت میں جانا کافی مشکل ہوجائے گا۔
نوازشریف کے مخالفین ان کے مقدر کے بارے میں جو منظر تشکیل دے چکے تھے اسے جھٹلانے کی مہلت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر جب محض اپنے ذہن کو صاف رکھنے کےلئے چند سوالات اٹھاتے تو اس ملک میں فروغ دیانت پر اپنے تئیں مامور افراد چراغ پا ہوجاتے۔ بہت رعونت سے یہ سوال اٹھایا جاتا کہ آیا نوازشریف کو مزید سیاست کی اجازت دینا اس ملک کے ساتھ ظلم ہوگا یا نہیں۔
چند متقی،آزاد منش اور دنیاوی ضروریات سے بے نیاز ہوئے صحافیوں نے عمران خان صاحب کی جانب سے اس ملک میں کرپشن کے خاتمے کےلئے دن رات ایک کرنے والی جدوجہد کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس جدوجہد کی بدولت ریاست کے دائمی مگر ”سازشی“ اداروں سے مکمل طور پر آزاد ہوئی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو ”گاڈ فادر“ قرار دیا۔ ان کے لواحقین ”سسیلین مافیا“ کے رکن ٹھہرے۔ وہ اقامہ کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر قائم رہنے کے لئے نااہل قرار پائے۔ اس ملک سے محبت کرنے والے صحافیوں، سیاستدانوں اور ریاستی حکام کا اب یہ فرض بن چکا تھا کہ نواز شریف کو احتساب کے شکنجے میں ڈال کر ان کی بے تحاشہ دولت کے ذرائع کا سراغ لگایا جائے۔ تھوڑی محنت کے بعد معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ دولت مبینہ طور پر حکومتی اختیارات کی بدولت جمع ہوئے کمیشن اور کک بیکس پر مشتمل تھی۔ اس دولت کو منی لانڈرنگ کے ذریعے غیرممالک منتقل کیا گیا اور لندن جیسے شہروں میں قیمتی جائیدادیں خریدی گئیں۔
نوازشریف کے حقیقی،آزاد منش اور دنیاوی ضروریات سے بے نیاز ہوئے مخالفین کو مگر افسوس یہ رہا کہ وہ لندن ”بھاگ“ گئے ہیں۔ عمر اُن کی 68 برس ہوچکی‘ دل کے مریض بھی ہیں اس عمر میں آپ کی قوتِ مدافعت و مزاحمت جواب دے دیتی ہے۔ اس کا ”فائدہ“ اٹھاتے ہوئے نواز شریف اپنے بچوں سمیت لندن میں مقیم رہیں گے اور ریاستِ پاکستان ان کے احتساب کےلئے Fast Track والا راستہ اختیار نہیں کر پائے گی۔
سچی بات ہے کہ اس کالم نویس کی شریف خاندان تک قطعاً کوئی رسائی نہیں ہے۔ ریاستی اداروں میں موجود ان کے مخالفین کی سوچ کے بارے میں بھی میں تقریباً بے خبر ہوں۔ سیاست کا محض ایک ادنیٰ طالب علم اورکئی برسوں تک ایک متحرک رپورٹر رہتے ہوئے میرے دل و دماغ کبھی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئے کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد نواز شریف نے سیاست سے فرار کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وہ جان بچاکر لندن میں پناہ گزین ہوجانے پر تیار ہوگئے ہوتے تو ان کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی لاہور سے قومی اسمبلی کی NA-120 والی نشست پر بیگم کلثوم نواز کو کھڑا کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی نامزدگی کے بعد بھی محترمہ کلثوم نواز کی موذی بیماری کو جواز بناکر انتخابی لڑائی سے دستبرادری کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔
نواز شریف نے مگر اپنی بیٹی مریم نواز کے ذریعے اس نشست کو جیتنے کےلئے ایک شدید جنگ لڑی۔ اس جنگ میں مریم نواز تقریباً تنہا نظر آئیں‘ ان کے چچا شہباز شریف انتخابی معرکے سے دور رہے۔ حمزہ شہباز شریف سے منسوب ہوئی Constituency Management والی Skill بھی مریم نواز کی مدد کرتی نظر نہیں آئی۔
شہبازشریف کے چودھری نثار علی خان جیسے دانا دوستوں نے بھی NA-120 سے ناقدانہ فاصلہ رکھا۔ مسلم لیگ کی ”سینئر قیادت“ کے مشورے یہی رہے کہ نواز شریف ”نیویں نیویں“ رہ کر اپنی اور ان کی زندگیاں آسان بنائیں‘ بیگم صاحبہ کے علاج پر توجہ دیں۔ وطن لوٹ کر احتساب عدالتوں کے روبرو خجل خوار ہونے کے بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو سیاسی اعتبار سے توانا کریں۔ ریاست کے دائمی ادارے شہباز صاحب کی دیانت اور محنت شعاری سے متاثر ہیں۔ شاید کسی روز وہ اپنے بھائی کے لئے ان سے کوئی NRO بھی حاصل کر ہی لیں۔
محض ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے میں لیکن اصرار کرتا رہا کہ احتساب اگر واقعتاً ہونا ہے تو اس کا نشانہ صرف نواز شریف اور ان کے بچے ہو ہی نہیں سکتے۔ پانامہ دستاویزات کے حوالے سے Money Trail کی بابت اٹھائے سوالات کا آغاز میاں محمد شریف مرحوم سے ہوتا ہے۔ کہانی 1972ءسے شروع ہوتی ہے جس کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں متحرک معاونت ہمیشہ شہباز شریف ہی فراہم کرتے رہے۔ نواز شریف صاحب کا عمومی رویہ اس ضمن میں ”ماں کا لاڈلا“ والا رہا ہے اور 1981ءمیں انہیں ان کے والد نے فل ٹائم سیاست کی نذر کردیا تھا۔
حدیبیہ پیپرز والا کیس کھلتا ہے تو سوالات شہباز شریف کی دولت پر بھی اٹھائے جائیںگے۔ نواز شریف کے بارے میں تو صرف پانامہ اور اقامہ ہیں۔ شہبازصاحب کے متھے ماڈل ٹاﺅن کا واقعہ بھی لگ چکا ہے۔ اس کی بنیاد پر کئی افراد ”گاڈ فادر ٹو“ کو قتل کے الزام میں پھانسی گھاٹ بھی پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ قصہ مختصر، احتساب ہونا ہے تو صرف نواز شریف اور ان کے بچوں ہی کا نہیں ہوگا‘ میاں محمد شریف مرحوم کے سارے خاندان کو ”عبرت کا نشان“ بنانا ضروری ہوجائے گا۔
دنیا کا ہر سیاستدان خواہ وہ مبینہ طور پر کتنا ہی ”کرپٹ“ کیوں نہ ہو، عمر کے آخری حصے میں اپنی Legacy کے بارے میں بہت فکرمند ہوجاتا ہے۔ پاکستان کا تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف ”گاڈ فادر“ کی تہمت کے ساتھ اپنا سیاسی انجام برداشت کر ہی نہیں سکتے خاص طور پر جبکہ ان کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد ان کے بھائی، بیٹوں اور بیٹی کو بھی ایک ”جرائم پیشہ خاندان“ ٹھہرا کر جیلوں میں ڈال دیا جائے۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے Patriarch نواز شریف اب اپنے خاندان کا Patriarch ہیں صرف اپنی ہی نہیں پورے شریف خاندان کی ناموس کا تحفظ اب ان کی ذمہ داری ہے۔ نواز شریف یہ ذمہ داری نبھانے کو پوری طرح تیار ہیں۔ اسی لئے ان کی پیر کی صبح وطن واپسی کے بارے میں ہرگز حیران نہیں ہوا۔
بشکریہ نوائے وقت