سندھ حکومت کے استغاثہ کا انصاف
Reading Time: 2 minutesکراچی کے مشہور شاہ زیب قتل میں ملوث شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں کی ضمانت منظور کرلی گئی ہے۔ چوبیس دسمبر دوہزار بارہ کے دن قتل ہونے والے شاہ زیب اپنی بہن کی شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس آئے تھے۔ ملزمان کے طاقتور ہونے اور سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے مقدمہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینلوں پر بہت زیادہ ائرٹائم لیتے ہوئے ٹاک شوز کی بحث کا موضوع رہا۔
ملزم شاہ رخ جتوئی ایک ایسے طاقتور سرمایہ دار سکندر جتوئی کا بیٹاہے جس کی ملکیت میں سندھی زبان کا ٹی وی چینل ’آواز ‘ بھی ہے۔ ملزم اپنے ساتھیوں سراج تالپور اور سجاد تالپور کے ہمراہ مفرور ہوگیا۔ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہونے والے ملزم کے باپ پر دباﺅ اس وقت پڑا جب ملک کی اعلی عدالت نے ازخود نوٹس لیا۔
ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں غفلت کے بعد عدالت کے حکم پر دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں اور ٹرائل کورٹ نے گرفتاری کے بعد مقدمہ چلاکر ملزمان کو آٹھ جون دوہزارتیرہ کو ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی۔ جس کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ اس دوران مقتول کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب نے مبینہ دباﺅ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے مجرموں کے والدین سے کروڑوں روپے لے کر صلح کر دی۔
جیل میں سزائے موت کے مجرموں پروٹوکول ملتا رہا کیونکہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ان کے سرپرستوں کی ہے۔ انتیس نومبر کو سندھ ہائیکورٹ نے ایک غیر متوقع فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں ٹرائل کورٹ کو ازسرنو کیس چلانے کی ہدایت کی۔ جس کے بعد مجرم قراردیے گئے شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوست ملزم بن گئے۔
کراچی کی ٹرائل کورٹ نے آج تینوں ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے کر پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے اور ٹرائل کورٹ کے ضمانت منظورکرنے کے حکم کے پیچھے پیسے کی چمک سے زیادہ سندھ حکومت کے استغاثہ کے وکیلوں کی جانب سے کمزور دلائل ہیں جنہوں نے مقدمہ خراب کرکے ملزمان کی باعزت بریت کا راستہ ہموار کیا ہے۔