بے بس و غیر متعلق
Reading Time: 4 minutesبھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ماں اور بیوی کو اس سے ملاقات کی اجازت دے کر ریاستِ پاکستان دنیا یا بھارت کو یقیناً کوئی پیغام دینا چاہ رہی ہوگی۔ وہ پیغام کیا تھا؟ اس کا پتہ چلانا کل وقتی رپورٹروں کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ خاص طور پر ان خواتین وحضرات کی جو خارجہ اور سلامتی کے امور سے متعلق Beats پر مامور ہوتے ہیں۔ 24/7 چینلوں کے اس دور میں لیکن اُکھڑے سانسوں کے ساتھ Beeper فروشی نے ’’رپورٹروں‘‘ کو آنکھوں دیکھا حال سنانے والے Commentators میں بدل ڈالا ہے۔ کیمرہ جو کچھ دکھا رہا ہوتا ہے اسے ہی بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک شے دریافت ہوئی ہے Body Language ۔ میرے کچھ سینئرز نے اسے ’’بدن بولی‘‘ کہا ۔ ترجمہ مناسب تھا۔ خوب صورت اور آسان بھی مگر چل نہیں پایا۔ بہرحال میں نے بھی Body Language کو سمجھنے کے لئے چند کتابیں بہت غور سے بارہا پڑھی ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کتابوں کے ذریعے سمجھی ’’زبان‘‘ کو عملی زندگی میں برتتے ہوئے اکثر دھوکا ہی کھایا۔ اس کے اطلاق میں قطعاًََ ناکام رہا۔ پیر کی صبح سے شام ہونے تک مگر اس ’’بولی‘‘ کے ہمارے تمام ٹی وی چینلوں پر بہت چرچے رہے۔ 25 دسمبر کا دن اگرچہ میڈیا کو اس سوال پر غور کرنے میں صرف کرنا چاہیے تھا کہ قائداعظم کا سوچا پاکستان کیا ہونا چاہیے تھا۔ ہم ویسا پاکستان بنا پائے یا نہیں۔ ان سوالوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملی۔ سارا دن کلبھوشن کی نذر ہوگیا۔
کسی بھی ریاست کے قومی سلامتی اداروں کے ہاتھ دشمن ملک کا کوئی جاسوس آ جائے تو عموماًََ اس کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ کلبھوشن یادیو مگر ایک Big Catch تھا۔ مبارک پٹیل کے فرضی نام کے ساتھ اس نے بھارتی پاسپورٹ بنوایا۔ اس حیثیت میں ایران کے شہر چاہ بہار میں کاروبار کے نام پر اپنے لئے ایک Cover تراشا اور ہمارے بلوچستان میں تخریب کاری کی سرپرستی اور نگہبانی کرتا رہا۔ پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے بعد گرفتار ہوا تو سب کچھ بتا دیا۔ طولانی اعترافی بیانات دینے کے بعد وہ ہمارے لئے اہم نہیں رہا۔ غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے کے بعد ہوئی گرفتاری نے اسے مارنا بلکہ بہت آسان بنا دیا تھا۔ ہماری ریاست اس کی گرفتاری کا اعلان کئے بغیر ٹھوس معلومات حاصل کر لینے کے بعد اسے ٹھکانے بھی لگا سکتی تھی۔ اسے زندہ رکھنا مگر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ٹھہرا کہ بھارت ہمارے بلوچستان میں علیحدگی پسند اور تخریب کاری کی اپنے ریاستی کارندوں کے ذریعے سرگرم پشت پناہی میں مصروف ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری اور ا عترافی بیانات کو مگر ہم مؤثر انداز میں استعمال نہ کر پائے۔ نام نہاد ’’عالمی ضمیر‘‘ نے ہماری جانب سے بتائی کہانی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ پاک، بھارت کشیدگی دنیا ایک معمول کے طور پر لیتی ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے جاسوسوں کے بارے میں بھی اکثر سنسنی خیز کہانیاں منظرعام پر آیا کرتی تھیں۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک باقاعدہ ملازم نے John Le Carre کے قلمی نام سے اس ضمن میں بہت شاہکار ناول بھی لکھے ہیں۔
’’عالمی ضمیر‘‘ کلبھوشن کی گرفتاری اور اعترافی بیانات سے لاتعلق رہا تو ہمارے کئی جذباتی محبانِ وطن نے اس کی ذمہ داری ’’مودی کے یار‘‘ کے سر ڈال دی۔ جی ہاں پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیراعظم جسے بھارت کے ایک مشہور صنعت کار ’’سجن جندل‘‘ کا کاروباری شراکت دار بھی بتایا جاتا ہے۔ مودی کے مبینہ ’’یار‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی لیکن کلبھوشن کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی۔ اس سزا کے خلاف اس نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ دریں اثناء بھارت اس کا معاملہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں لے گیا ہے۔ ظاہر ہے وہاں سے کوئی فیصلہ آنے تک ہم اسے پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے۔ انتظار کے ان لمحات میں اگر انسانی بنیادوں پر کلبھوشن کی ماں اور بیوی کو اس سے ملنے کا موقعہ فراہم کر دیا گیا تھا تو اس موقعہ کو میڈیا پر Hype کی صورت دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ ہماری ریاست کو لیکن اگر اس کے ذریعے کوئی پیغام دینا مقصود تھا تو خارجہ اور سلامتی کے امور پر رپورٹنگ کرنے والوں کی مؤثر بریفنگ اشد ضروری تھی۔ مجھے شبہ ہے کہ ایسی بریفنگ ہرگز نہیں ہوئی۔ آج کا دور Optics کا دور ہے۔ ریاست قومی سلامتی اور خارجہ امور کے حوالے سے کوئی پیغا م دینے کے لئے ان Optics کو فلم کے لئے لکھے کسی سکرپٹ کی طرح سوچ کر بہت مہارت سے Choreograph کرتی ہے۔ میں پیر کے روز ہوئی ملاقات کے بارے میں کسی سوچے سمجھے سکرپٹ کا سراغ نہیں لگا پایا ہوں۔ اس کی مؤثر Execution تو دور کی بات ہے۔ بھارت کو کوئی پیغام دینے سے پہلے ہماری ریاست کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 24/7 کے ساتھ جڑی جنونیت وہاں کارگل کے دنوں ہی سے ٹی وی سکرینوں پر چھا چکی ہے۔ مودی اور اس کی جماعت نے اس جنونیت کو بہت مکاری سے ہمیشہ اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاید زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ کلبھوشن کی ماں اور بیوی کی اس سے ملاقات کو ٹی وی کیمروں اور Beeper فروشوں کی زد سے باہر رکھا جاتا۔ یہ ملاقات ہو جانے کے بعد سرکاری طور پر ایک تصویر کے ساتھ نپے تلے الفاظ میں ایک پریس ریلیز جاری کر دی جاتی جو ہم سب کو یہ اطلاع دیتی کہ سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی انسانی بنیادوں پر اس کی ماں اور بیوی سے ملاقات کروا دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں برتے میڈیا Hype کو بھارتی ٹی وی چینلوں پر حاوی جنونیوں نے اسی انداز میں دیکھا ہے جس کی مجھے توقع تھی۔ ہمارا ’’انسانی بنیادوں‘‘ والا پیغام وہاں پہنچ نہیں پایا۔ مودی حکومت کو بلکہ وہاں کے میڈیائی سورمائوں نے اسی ملاقات کے حوالے سے آئی فوٹیج دکھاتے ہوئے دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے مختلف مقامات پر بلاجواز بمباری کے ذریعے اب وہاں کی حکومت اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرے گی۔ نہایت سوچ بچار کے بعد بہت منطقی وجوہات کی بناء پر کلبھوشن کی ماں اور بیوی کو اس سے ملاقات کا موقعہ فراہم کرنے والا معاملہ اب پاکستان اور بھارت میں Ratings کے حصول کے لئے کچھ بھی کہہ دینے کو ہر وقت تیار کلاکاروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ عقل وفہم والے اب ان کے برپا کئے شور کی بدولت بے بس و غیر متعلق ہی نظر آئیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت