ججوں نے پریس کانفرنس کر لی
Reading Time: 2 minutesانڈین سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے پریس کانفرنس کی ہے اور ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہے ۔ انڈیا میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ ہے ۔ چار ججوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس عدالتی اصولوں کے خلاف اپنی پسند کے مطابق مقدمات مختلف بینچوں میں لگاتے ہیں۔
ججوں نے کہا کہ جب تک عدالتی ضابطہ کار کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی۔ جن چار سینیئر ترین جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی ہے ان میں جسٹس جے چلاس پیشمر، جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف۔
یہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کی ریذیڈنس پر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینییر ترین جج جسٹس جے چلاسپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارے نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اور منضف عدلیہ اچھی جمہوریت کے لیے کی جانب اشارہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’چونکہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ آج صبح بھی ہم چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے پوائنٹ پر متفق نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ عدلیہ کا خیال کرو۔‘ جسٹس جے چلاسپیشمر نے مزید کہا ’میں نہیں چاہتا کہ 20 سال بعد اس ملک میں ایک سوج بوجھ رکھنے والا شخص کہے کہ جے چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا۔‘
عدالتی ضوابط کے مطابق جج صاحبان میڈیا سے براہ راست بات نہیں کرتے تاکہ کیسز میں غیر جانبدار رہیں۔ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی۔
ان چار جج صاحبان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ’چند عدالتی احکامات‘ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ان احکامات کی وجہ سے عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ ان کے پاس میڈیا سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان کے تحفظات سننے سے انکار کر دیا تھا۔