پاکستان

راﺅ انوار کو تین دن میں گرفتار کریں

جنوری 27, 2018 3 min

راﺅ انوار کو تین دن میں گرفتار کریں

Reading Time: 3 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ سندھ پولیس کے سربراہ بتائیں کہ جعلی پولیس مقابلوں والا راﺅ انوار کہاں گیا؟۔ انہوں نے آئی جی اے ڈی خواجہ سے کہاکہ ٹائم فریم دیں، یا پتہ کریں راو انوارکہاں گیا، یہاں بڑے بڑے چھپانے والے موجود ہیں، کسی نے راﺅانوار کو چھپایا تو نہیں؟ عدالت نے راﺅ انوار کے بیرون ملک سفرکی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پولیس حکام کو اسے تین روز میں گرفتار کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس لیا تھا اور راﺅ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت طلب کیا تھا۔ سماعت کے آغاز پر سندھ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا راﺅ انوار عدالت میں ہیں؟ آئی جی سندھ نے جوب دیا کہ وہ مفرور ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے راو انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا ،انہیں ہر صورت پیش ہونا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے پو چھا کہ کیا کہ راﺅ انوار کو گرفتار کرنے کی کیا کوشش کی؟آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ انہیں گرفتار کرنے کی ہرطرح کوشش کی جاچکی ہے، راو انوار اسلام آباد میں تھے جب تک مقدمہ درج نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ 15 دن میں راو انوار نے بیرون ملک سفر تو نہیں کیا، یہ بھی بتائیں کیا راو انوار نے نجی طیارے میں سفر کیا کہ نہیں، آپ کیوں تفصیلات ساتھ نہیں لائے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے کہا کہ کس کے طیارے آپ کے پاس ہیں، نام بتائیں، تمام چارٹرڈ طیارے رکھنے والے مالکان کے حلف نامے پیش کریں، بتایا جائے کہ ان کے طیاروں میں راو¿ انوار گیا کہ نہیں۔ عدالت نے راو انوار کے بیرون ملک سفر کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جمعرات تک وزارت داخلہ اور سول ایوی ایشن حکام رپورٹ جمع  کرائیں، بتایا جائے کہ راو انوار بارڈر سے فرار تو نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی میں کسی نے راو انوار کو چھپایا تو نہیں، یہاں بھی بڑے بڑے چھپانے والے موجود ہیں یا کہیں وہ ملک سے فرار تو نہیں ہوگیا۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ ممکن ہے فرار ہوگیا ہو لیکن ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، وقت نہیں دے سکتا لیکن ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کتنا وقت چاہیے،  جو ایماندار افسران ہیں انہیں ناکام نہیں ہونے دیں گے، آپ آزادی سے کام کریں کسی کے دباو¿ میں نہ آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹائم فریم دیں، یا پتا کریں کہاں گیا راو انوار، یہ تو نہیں کہ جہاں راو گیا وہ آپ کی پہنچ میں نہ ہو۔ آئی جی سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ تین دن کا وقت دیں جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ٹھیک ہے تین دن میں گرفتاری یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس نے نقیب اللہ کے والد محمد خان کو بلایا اور کہا کہ نقیب اللہ محسود قوم کا اور ہمارا بچہ تھا، ریاست کو قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ محمد خان نے کہاکہ عدالتی کمیشن بناکر بیٹے کے قتل کی تحقیقات کرائی جائیں۔ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت یکم فروری تک ملتوی کر دی ہے ۔
عدالت میں جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ اور اس کے دو دوستوں کو 3جنوری کو سچل تھانے کی پولیس پارٹی نے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع گل شیر ہوٹل اٹھایا تھا۔ تینوں کو اٹھانے والا سچل تھانے کا اے ایس ائی علی اکبر تھا جبکہ اس کی معاونت کیلئے دو پولیس اہلکار بھی ساتھ تھے۔ اٹھانے کے بعد نقیب اللہ سمیت تینوں پر تشدد کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعد میں رشوت لے کر دو افراد کو چھوڑ دیا گیاجبکہ نقیب کو جعلی مقابلے کے لیے لے جایا گیا تو اس وقت وہاں 10 افراد پہلے سے قید تھے۔ جعلی مقابلے کا وقت 3 بج کر 20 منٹ تھا، ایس ایس پی راوانوار اور پولیس پارٹی 3بج کر 21منٹ پر وہاں موجود تھی،اس بات کا پتا موبائل فون لوکیشن کے ذریعے لگایا گیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد ہوچکا ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں پولیس اہلکاروں کی تبدیلی، مقدمے اور گرفتاری تجویز کی گئی تھی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے