فون کارڈز پر ٹیکس کیس
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈ پر ٹیکس کٹوتی ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سیلز ٹیکس پر صوبوں اور سروس چارجز پر موبائل کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا ہے ۔ عدالت نے ایف بی آر سے فون کالز پر ٹیکس کے اطلاق کا جواب طلب کیا ہے ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے سماعت کی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ موبائل فون کارڈز کے استعمال پر ودہولڈنگ ٹیکس کیسے لیا جارہا ہے ۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ 12.7 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اور سیلز ٹیکس 19.5 فیصد ہے، 100 روپےکے کارڈ پر دس فیصد سروس چارجز ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کریں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سروس چارجز کیوں لیے جاتے ہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سروس چارجز کا جواب کمپنیاں دے سکتی ہیں، سرکاری حکام اور ڈپلومیٹس سے ودہولڈنگ ٹیکس نہیں لیا جاتا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق ایف بی آر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سیلز ٹیکس صوبے وصول کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کس قانون کے تحت سیل ٹیکس لگا رہے ہیں، کیا یہ ڈبل ٹیکس لگانا استحصال نہیں ہے، موبائل کارڈ پر سیلز ٹیکس کیسے لگا دیا، جو شخص ٹیکس دینے کا اہل نہیں اس پر ودہولڈنگ ٹیکس کیوں لگایا، وہ ٹیکس کے پیسے کیسے واپس لے گا، ودہولڈنگ وہی شخص دے گا جو ٹیکس دینے کا اہل ہوگا ۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ 42 فیصد رقم ٹیکس کی مد میں کاٹ لی جاتی ہے، سروس چارجز بھی ایک قسم کا ٹیکس ہے، یہ غیر قانونی طریقے سے عوام سے پیسے نکلوانا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ 14 کروڑ صارفین سے ودہولڈنگ کیسے لیا جا رہا ہے، صوبے 19.5 فیصد کس قانون کے تحت سیل ٹیکس کاٹ رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تو میں پٹرول اور ڈیزل کی طرف بھی آؤں گا، پوچھا جائے گا پٹرول ڈیزل پر کتنا ٹیکس لگایا جاتا ہے ۔
عدالت نے سیلز ٹیکس پر صوبوں اور سروس چارجز پر موبائل کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا ہے جبکہ ٹیکس کے اطلاق پر ایف بی آر سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ۔