ایک قتل کیس کی روداد
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ سے اے وحید مراد
صبح ساڑھے نو بجے عدالت لگی تو کمرہ عدالت میں جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے پہلا مقدمہ دو مجرموں کی عمر قید کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کا تھا ۔ وکیل کہہ رہے تھے کہ شریک ملزم بے قصور نہیں ہے، آصف بٹ سے مقتول فراز عباس کی اشیا برآمد ہوئیں ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ پولیس کیس بنانے کیلئے کیا کچھ کرتی ہے، مقتول کے لواحقین سے کہا جاتا ہے کہ مقتول کا کارڈ، لائسنس اور دیگر چیزیں لائیں ہم ملزم سے برآمد کرا لیتے ہیں ۔
جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا کہ ملزم کی مقتول سے وجہ عناد بتایئے؟ ۔ وکیل نے کہا کہ وہ بدفعلی کرنا چاہتا تھا، یہ ناجائز تعلق ہی وجہ عناد ہے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے پاس وجہ عناد نہیں ہے، ملزم کے بیان سے ہی عناد لے کر آئے ہیں ۔ وکیل نے کہا کہ ایک ملزم کا بیان یا اعتراف شریک ملزم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے قانون میں اس کی اجازت ہے ۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس کیلئے شرائط ہیں ۔
اس کے بعد جسٹس کھوسہ نے ساتھی ججوں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم سے پانچ منٹ مشاورت کی ۔ عدالت میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ اس کو توڑتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ حقائق پر آپ کا مقدمہ کمزور ہو گیا ہے اب عدالتی فیصلوں سے مثالیں اور حوالے دیں، ہر مقدمے کے حقائق مختلف ہوتے ہیں ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ریاست نے صرف شریک مجرم آصف بٹ کی سزا بڑھانے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے جبکہ مرکزی مجرم ظفراللہ جان کو ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزا بڑھانے کیلئے اپیل نہیں کی ۔ جس کے خلاف مقدمہ کمزور ہے اس کی سزا بڑھانا چاہتے ہیں اور جس کے خلاف مقدمہ مضبوط ہے اس کی سزا بڑھانے کی اپیل ہی نہیں کی ۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ معمولی غلطی سے ہوا، تاہم ہمارے پاس شریک ملزم کے خلاف شواہد تھے اس لیے سزا بڑھانے کی اپیل کی ۔ مقتول کے اہل خانہ کے وکیل نے کہا کہ ملزم کے اس خاندان کے ساتھ تعلقات تھے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے پاس اپنی کوئی شہادت نہیں، کیس کی بنیاد ہوا میں ہے، ملزم کے اس بیان پر اپنا مقدمہ بنا رہے ہیں جس سے وہ مکر گیا تھا ۔
استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ ملزم کا بیان 342 کے تحت ریکارڈ کیا گیا ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ دفعہ 342 کا بیان اعتراف جرم نہیں ہوتا اور یہ حلف پر بھی نہیں ہوتا، بہت سی چیزیں صرف کاغذی کارروائی ہوتی ہیں حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔ اسی دوران سرکاری وکیل اٹھے اور کہا کہ ملزم آصف بٹ کو بد فعلی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ جو جرم ہوا ہی نہیں اس کی سزا کیسے دیں؟
اس کے بعد تینوں ججوں نے مشاورت کی ۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے حکم لکھوانا شروع کیا تو عدالت میں خاموشی چھا گئی ۔
حکم نامہ ۔۔۔ یہ دو اپیلیں مجرموں ظفر اللہ جان اور آصف بٹ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں ۔ ظفر اللہ نے مبینہ طور مراد عباس کو اپنے گھر سے بلایا اور اس سے بدفعلی کی کوشش کی ۔ اس میں ناکامی ہوئی تو مبینہ طور پر آصف بٹ نے مراد عباس کو گولی مار کر قتل کر دیا ۔ عباس کی نعش کو بعد ازاں ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ۔ پولیس نے ظفر اللہ کے گھر سے یہ ٹکڑے برآمد کیے ۔ صادق آباد پولیس نے 30 اکتوبر 2005 کو قتل کے اقدام کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ تفتیش کے دوران انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں ۔
ٹرائل کورٹ نے دونوں ملزمان کو انسداد دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت سزائے موت اور جرمانے کی سزائیں سنائیں، الگ دفعات کے تحت عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی ۔ دونوں مجرموں نے سزاؤں کو الگ الگ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ۔ ہائیکورٹ نے اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تاہم سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا اور جرمانے کی رقم میں بھی تخفیف کی گئی ۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ غلط لگائی گئی ۔
ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جبکہ ریاست نے بھی ایک ملزم کی سزا بڑھانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ یہ اپیل 19 اکتوبر 2016 کو سماعت کیلئےمنظور کی گئیں ۔ ظفراللہ جان کے خلاف شہادت مسماۃ اقبال بیگم نے دی، اسی طرح گواہ محمد رفیق نے کہا کہ اس نے آخری بار مقتول فراز عباس کو ظفراللہ جان کے ساتھ دیکھا تھا ۔ گواہ افتخار حیدر نے کہا کہ اس نے ملزم کو اعتراف جرم کرتے سنا ۔ اسی طرح نعش کے ٹکڑے اور مقتول کے خون آلود چپل ظفراللہ کے گھر سے برآمد ہوئے، ان ٹکڑوں اور شواہد سے ثابت ہوا کہ فراز عباس کو ظفراللہ لے کر آیا ۔ اسی طرح مبینہ طور آصف بٹ سےمل کر قتل کیا ۔
ہم نے اس بات کو بہت غیر معمولی اور عجیب پایا کہ فرد جرم عائد کئے جانے کے وقت ظفراللہ نے کہا کہ وہ ملوث نہیں اور الزام کو قبول کرنے سے انکار کیا تاہم جرح کے دوران جو بھی چیز بطور ثبوت اس کے سامنے لائی گئی اس نے مان لی اور قبول کیا کہ وہ مقتول کر گھر سے لے گیا تھا اور اسے قتل کیا ۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ کسی دباؤ میں تھا یا اس کو یہ اعتراف کرنے کیلئے کہا گیا، ماتحت دونوں عدالتیں اس بیان کو مانتی ہیں اور سزا دی، اسی وجہ سے اس عدالت نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا ۔ اس لیے ظفراللہ جان کی اپیل خارج کی جاتی ہے اور اس کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا جاتا ہے ۔
شریک ملزم آصف بٹ مقتول فراز عباس کو لے کر ظفراللہ کے گھر نہیں گیا تھا ۔ جس محمد رفیق نے اس کی گواہی دی وہ 110 کلومیٹر دور سے آیا اور وہاں موجودگی کی وجہ بتانے میں ناکام رہا اور عدالت کو مطمئن نہ کر سکا اس لیے جھوٹ سمجھا جاتا ہے ۔ ملزم آصف سے جو پستول برآمد کیا گیا فرانزک رپورٹ میں وہی ثابت نہیں ہوا جس سے گولی چلائی گئی تھی ۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ وجہ عناد بھی ثابت نہیں ہوئی ۔
ملزم بٹ کے خلاف استغٖاثہ دو شواہد لے کر آیا کہ مقتول کا کچھ سامان اس سے برآمد ہوا، پستول اور اس نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم کیا، یہ چیزیں ضمنی طور پر بعد میں لائی گئیں ۔ یہ شہادتیں اس عدالت کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیں ۔ استٖغاثہ کے گواہ اس پوزیشن میں نہیں کہ مدعی فریق اور ملزم کا تعلق ثابت کر سکیں ۔ اسی طرح ایک گواہ ملک ظہور اقبال کو خود استغاثہ نے پیش نہ کیا ۔ یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم آصف بٹ کے خلاف استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔ اس لیے اس کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جاتا ہے، اگر کسی الگ مقدمے میں مطلوب نہیں تو ریا کیا جائے ۔
اس قتل کی کوئی مکمل شہادت جائے وقوعہ سے نہیں، اس لیے مکمل تصویر نہیں بن سکتی اور اس واقعہ پر غیر یقینی اور اسرار کے پردے پڑے ہیں ۔ ریاست کی سزا بڑھانے کی اپیل خارج کی جاتی ہے ۔