توہین عدالت: طلال چودھری کا بیان قلمبند
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں طلال چودھری توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ طلال چودھری کا بیان ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت قلمبند کر لیا گیا ۔ طلال چوھدری نے توہین عدالت کیس میں بیان قلمبند کراتے ہوئے عدالتی سوالوں کے جواب دیے ۔
بیان ریکارڈ کرانے کے وقت پوچھا گیا کہ کیا عدالت میں پی سی او بت بیٹھنے کی بات آپ کی ہے، طلال چوہدری نے جواب دیا کہ اس کو پورا پڑھا جائے _ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کی بات کی ٹون اور الفاظ عدلیہ کے مخالف تھے، جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ یہ الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں، طلال چودھری نے کہا کہ میں نے کوئی توہین عدالت نہیں کی، طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ میں عدالت کی عزت کرتا ہوں، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ عزت کرتے ہیں تو دیکھ لیں گے،
جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا درست ہے کہ یہ تقاریر عوامی اجتماعات سے تھیں۔ طلال چوہدری نے جواب دیا کہ 24 جنوری کی تقریر نہیں تھی پریس ٹاک تھی، پریس ٹاک کو ایڈیٹ کر کے میرے بہت سے جملے بدنیتی سے نکال دیے گئے، میری تقریر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی، 27 جنوری کی تقریر کسی جج کے لیے نہیں تھی ۔
عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا دکھائی گئی ویڈیو کلپ آپ کی ہے؟ طلال چوہدری نے جواب دیا کہ مکمل ویڈیو میری نہیں اس کو کاٹا گیا ۔ عدالت کا سوال تھا کہ کیا بابا رحمت سے متعلق جملے آپ کے تھے؟ طلال چوہدری نے جواب دیا کہ بہت سے جملے کاٹے گئے اور جوڑے گئے، میں نے یہ بھی کہا بابا رحمت کی ہم عزت کرتے ہیں، خاص حالات سے ہم دوچار ہیں ۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ آپ کا بیان ہے جماعت کا بیان نہیں، عمومی باتیں نہیں کرنے دیں گے، یہ عدالتی کارروائی ہے تقریر کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ طلال چوہدری نے کہا کہ میری ٹاک کے مختلف ٹکرے جوڑے گئے، توہین عدالت اور توہین رسالت کے الزامات بھی ہماری جماعت کے افراد پر لگے ۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ساری دنیا کی کہانی تو ہم ریکارڈ نہیں کریں گے ۔
طلال نے کہا کہ پہلے بھی استدعا کی ہے کہ نوٹس خارج کیا جائے، طلال چوہدری نے کہا کہ میری نیت پر شک نہ کیا جائے، اس سے قبل ہزاروں تقاریر کیں، کبھی کسی ادارے نے میری تقاریر پر قانونی نوٹس تک نہیں بھیجا ۔
عدالت نے طلال چودھری کے وکیل کو دفاع کے گواہوں کی فہرست جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی ۔