احسن اقبال کا ججوں سے مکالمہ
لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس کا سامنے کرنے والے سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن جج کی کرسی پر بیٹھنے والے کے پاس اختیار ہے کہ کسی کو بھی قاتل کہہ سکتا ہے ۔
سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت پروجیکٹر پر احسن اقبال کی پچاس منٹ کی تقریر دکھائی گئی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ احسن اقبال یہ بتا دیں اس ملک میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوش کس نے کی؟ سابق وزیر وہ فارمولا بتا دیں جس کے تحت انہوں نے یہ تقریر کی ۔ احسن اقبال نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم سب اس ملک کا حصہ ہیں ایسا نہیں کہ پارلیمنٹ بری اور باقی ادارے اچھے ہیں ۔ جج نے پوچھا کہ کیا یہ بیان سوسائٹی میں دیا جا سکتا ہے کہ ایک مچھلی گندی تو سب مچھلیاں گندی اور ایک اچھی تو سب اچھی، احتساب کا عمل کہاں گیا، آپ کا یہ بیان کسی فرد کے لیے ہے یا ادارے کے لیے ہے؟ احسن اقبال نے جواب دیا کہ یہ بیان قانون پر منحصر ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی قاتل کہہ سکتے ہیں ۔ جسٹس مسعود جہانگیر نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس نے آپ کو قاتل قرار دے دیا تھا؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ وزیر داخلہ بچوں کو سی پیک کا بتانے آیا اور چیف جسٹس کی تذلیل کر گیا ۔ کیس کی مزید کارروائی بائیس جون تک ملتوی کر دی گئی ۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، عدلیہ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ثابت کیا کہ وہ اناڑی سیاست دان ہیں،خان نے آج تک بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا، نہ ہی انہیں کوئی تجربہ ہے وہ بیس کروڑ عوام کی قیادت کیسے کر سکتے ہیں۔انشاء اللہ کلثوم نواز جلد صحت یاب ہو کر پاکستان لوٹیں گی ۔