ٹرمپ کا نیا منصوبہ
Reading Time: 4 minutesنیا سال شروع ہوتے ہی امریکی صدر اپنی کابینہ سمیت کیمروں کے سامنے بیٹھ گیا۔ کسی ’’پرچی‘‘ سے رجوع کئے بغیر اپنے دل میں جمع ہوئی کئی باتوں کو برملا بیان کرتا رہا۔ میں اس کی گفتگو کو ابھی تک تین سے زیادہ بار دیکھ چکا ہوں۔ اس پر مشتمل Transcript کو بھی دوبار پڑھا ہے ۔ اس کی گفتگو کے تفصیلی تجزیہ کی خاطر مگر چند باتوں کو ازسرنو دھیان سے سننا پڑے گا ۔
ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے میرا فوری ردعمل ’’بچّو اب سمجھ آئی‘‘ والا تھا ۔ بارہا وہ ٹویٹس یاد آتے رہے جو سال گزشتہ کے آغاز میں اس نے ہماری اہانت کے لئے انتہائی بیہودہ زبان میں لکھے تھے۔ 12مہینے گزر جانے کے بعد مگر اب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ پاکستان کو On Board لئے بغیر امریکی افواج افغانستان سے بخیر و عافیت اپنے وطن لوٹ نہیں پائیں گی۔ اس ہدف کے حصول کی خاطر شاید آنے والے چند دنوں میں اس کی پاکستانی قیادت سے ملاقات بھی ہو جائے۔ بغیر کسی ٹھوس اطلاع کے مجھے یہ گماں ہو رہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے دورہ ترکی کے دوران صدر اردوان متوقع ملاقات کا وقت طے کرنے میں معاونت کا کردار ادا کریں گے۔ ترکی کی مدد سے پاک – امریکہ تعلقات کو ایک نیا رُخ دینے کے ممکنہ نکات پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔
اپنی انا کی ذرا تسکین کے بعد مگر یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ میری توقعات کے عین مطابق پنجابی محاورے والا بھولا تو ہے مگر اتنا بھی نہیں۔ افغانستان سے جان چھڑانے کے بہانے وہ جو گیم لگا رہا ہے وہ ہمارے خطے کو 1990 کی دہائی میں واپس لے جا سکتی ہے ۔
روسی افواج کے افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جانے کے چند ہی ہفتوں بعد امریکہ کو اس برس ’’اچانک‘‘ یاد آ گیا تھا کہ پاکستان تو ایٹم بم تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے ۔ ہمیں ایٹمی قوت بننے سے روکنے کے لئے پاکستان کے خلاف مختلف النوع اقتصادی پابندیوں کا اطلاق کر دیا گیا۔ روسی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جو خانہ جنگی اور ابتری شروع ہوئی اس سے نبردآزمائی فقط پاکستان کی ذمہ داری ٹھہری ۔ ہمیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سہارا لے کر طالبان پر تکیہ کرنا پڑا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن سے محبت پال لی۔ اس کے بعد نائن الیون ہوا اور پاکستان کو ایک بار پھر افغان جنگ میں بھرپور انداز میں حصہ لینا پڑا۔ ہمارے اس کردار کے باعث مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ہوئی تخریب کاری نے کئی برسوں تک ہمیں خلفشار کا شکار بنائے رکھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ اپنی سطحی سوچ کے ساتھ ٹرمپ ہمارے خطے کو دوبارہ ان ایام کی طرف دھکیلناچاہ رہا ہے۔
امریکی صدر اپنی افواج کا حقیقی معنوں میں کمانڈر اِن چیف ہوتا ہے۔ بدھ کے روز کیمرے پر دکھائی گفتگو میں لیکن اس نے اپنے جرنیلوں کا بہت بے دردی سے مذاق اڑایا ہے ۔ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ بظاہر امریکی جرنیل فلمی اداکاروں جیسے طاقت ور اور شاندار نظر آتے ہیں۔ اپنے منصوبوں کو وہ بڑے اہتمام سے ہوئی بریفنگز کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ اہداف مگر حاصل نہیں کر پاتے۔ جانے کون سی خیالی دُنیا میں رہتے ہیں ۔
اپنی گفتگو میں امریکی صدر دسمبر 1979 میں سوویت افواج کی افغانستان آمد کو ایک حوالے سے جائز ٹھہراتا سنائی دیا۔ اس کے باوجود وہ یہ حقیقت بھی اجاگر کرنے کو مجبور ہوا کہ روس جب افغانستان گیا تو سوویت یونین کہلاتا تھا۔ افغانستان کی جنگ نے مگر اسے دیوالیہ کر دیا۔ اس جنگ میں شمولیت کی وجہ سے وہ بالآخر تاریخی روس تک سکڑ گیا۔ سوویت یونین کی توڑ پھوڑ کے بعد کئی نئے ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئے۔
سوویت یونین کا تفصیلی حوالہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ ٹرمپ اپنے ملک کو افغانستان کی جنگ میں ملوث رکھتے ہوئے دیوالیہ نہیں کرنا چاہتا۔ اسے وہاں سے نکلنا ہو گا۔ ٹرمپ کی یہ خواہش اس کی Base کو بہت پسند آئے گی۔ واشنگٹن میں بیٹھے Think Tank اور ریٹائرڈ جرنیلوں کی جانب سے لکھے مضامین اس Base کی سوچ کو بدل نہیں پائیں گے۔ کسی بھی ملک کے عام ووٹر کی طرح امریکی ووٹروں کی اکثریت کو بھی ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی…‘‘ والا رویہ زیادہ پسند آتا ہے۔ خاص کر جب امریکی صدر بارہا یہ حقیقت بھی یاد دلائے کہ افغانستان امریکہ سے 6000 میل دور ہے۔ وہاں جاری خلفشار کو سنبھالنا اس کے روس اور پاکستان جیسے ہمسایوں کی ذمہ داری ہے۔
حیران کن بات مگر یہ بھی ہے کہ افغانستان کے ہمسایوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے ایران اور چین کا ذکر نہیں کیا۔ بھارت کسی بھی حوالے سے افغانستان کا ہمسایہ کہلانے کا حق دار نہیں۔ امریکی صدر مگر اس توقع کا اظہار کرتا رہا کہ افغانستان کی جنگ میں وہ بھی اہم کردار ادا کرے۔ بھارتی وزیراعظم کا نام لے کر اس نے بہت تمسخرانہ رویے کے ساتھ یہ انکشاف کیا کہ وہ جب بھی نریندر مودی سے افغانستان میں کردار ادا کرنے کی بات کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے اس ملک میں ایک لائبریری بنائی ہے ۔
لائبریری کے طنزیہ انداز میں ذکر کے علاوہ بہت پریشان کن بات ٹرمپ کا یہ انکشاف تھا کہ چند ہفتے قبل امریکی جرنیلوں نے اسے افغانستان کے معاملات پر بریفنگ دیتے ہوئے یہ بتایا کہ اس ملک کے فلاں فلاں مقام پر طالبان اور داعش کے مابین جنگ جاری ہے۔ ٹرمپ یہ سمجھنے سے یہ قاصر تھا کہ اگر افغانستان کے کسی مقام پر ’’امریکہ کے دشمن‘‘- طالبان اور داعش- ایک دوسرے سے جنگ میں مصروف ہیں تو ’’ہماری فوج‘‘ ان کے درمیان کیوں آ جاتی ہے ۔ طالبان اور داعش کو ایک دوسرے کو ختم کرنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ۔
طالبان اور داعش کے مابین افغانستان کے کئی مقامات پر قبضے کی کاوشوں کے تفصیلی ذکر سے ٹرمپ نے اپنے دل میں چھپی بات کو عیاں کر دیا ہے۔ وہ درحقیقت یہ چاہ رہا ہے کہ امریکہ کی افغانستان سے لاتعلقی کے بعد اس کے ہمسائے اور علاقائی حوالے سے بھارت جیسے ممالک اپنی اپنی Proxies کی سرپرستی کرتے ہوئے افغانستان کا ’’ماما‘‘ بننے کی کوشش کریں۔ امریکہ 6000 میل دور بیٹھا Proxies کے مابین جاری اس جنگ کا تماشہ دیکھتا رہے۔
دور سے تماشہ دیکھنے کی یہ خواہش بہت سفاکانہ ہے۔ اس سفاکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ نے بالآخر پاکستان کے لئے جو ’’خوش کلامی‘‘ اختیار کی ہے اسے سن کر ذہن میں ’’ہوئے تم دوست جس کے…‘‘ والا مصرعہ یاد آ گیا۔ ربّ کریم صرف پاکستان ہی نہیں افغانستان کو بھی اس خوش کلامی میں چھپی سفاکی سے محفوظ رکھے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت