جسٹس فائز کے مقدمے میں کیا ہوا؟
Reading Time: 4 minutesرپورٹ: ج ع
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر کارروائی روکنے کے مقدمے میں عدالت عظمیٰ کا سات رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا ہے۔ مستقبل کے دو چیف جسٹس صاحبان جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الااحسن نے خود پر اٹھنے والے اعتراضات کے بعد بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تاہم کہا کہ یہ بھی کہا کہ وہ وکیل منیر اے ملک کے اعتراض پر نہیں بلکہ خود سے اس مقدمے کو نہ سننے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ مختلف وکلا تنظیموں نے بھی صدارتی ریفرنس کو آئینی درخواستوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے آئینی درخواستوں پر پہلی سماعت کی۔ مقدمے کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل منیر اے ملک نے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی حالیہ تقریر کا حوالہ دیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے نئے عدالتی سال کے آغاز کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں سیاسی خلا اور پولیٹیکل انجینئرنگ کی بات کی تھی یہ معاملہ بھی اسی کی کڑی ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کا نام لیے بغیر کہا ’ہم نے اہل ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ بنچ میں موجود دو مستقبل کے چیف جسٹس صاحبان بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔‘
واضح رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 2023 میں تیرہ ماہ کے لیے چیف جسٹس بن سکتے ہیں لیکن اگر جسٹس قاضی فائز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تو اس صورت میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجا ز الاحسن پر تیرہ ماہ بطور چیف جسٹس تقسیم ہوں گے۔
منیر اے ملک کے بنچ پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’آپ چار سال بعد چیف جسٹس بننے والے جج صاحبان پر تعصب کا الزام عائد نہیں کر سکتے۔ بینچ سے الگ ہونا ایک جج کا اختیار ہے، ججز پر تعصب کا الزام عائد کرنا افواہوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس مقدمے کی طر ف لگی ہوئی ہیں، یہ مقدمہ آئین و قانو ن کی حکمرانی سے متعلق ہے۔ ’میں اپنے موکل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم عدلیہ کی خودمختاری پر خود کو قربان کردیں گے۔‘
وکیل نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ اس مقدمے کو سننے کے لیے اہل جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے۔
جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ’میں آپ کے دلائل سے لطف اندوز ہورہا ہوں لیکن آپ کی تعصب والی دلیل سے ہم خوش نہیں ہیں۔ پورا مقدمہ سرزنش اور ملامت کی بنیاد پر قائم ہے، آپ نے عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے، کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ اٹھائیں، تمام ججز کھلی عدالت میں بیٹھے ہیں، کسی جج کے رویے میں لچک دیکھیں تو ہمیں بتائیں، اس اعتراض سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی مجروح ہو گا۔ بنچ سے علیحدگی کا حق اس جج کو حاصل ہے جس پر اعتراض ہو۔‘
منیر اے ملک نے کہا ان ججز کے کندھوں پر ذمہ داری ہے وہ خود فیصلہ کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں کسی جج کو مقدمہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اعلی عدلیہ کے جج کو تمام ممکنات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ دس بج کر پچپن منٹ پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم وقفے کے بعد دوبارہ آکر مقدمہ سنتے ہیں ۔اس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
عموما سپریم کورٹ میں گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ ہوتا ہے لیکن اس مقدمے میں ایسا نہیں ہوا۔
مقدمے کی سماعت میں وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے ایک تکنیکی اہلکار نے کمرہ عدالت میں لگے ساﺅنڈ سسٹم کو چیک کیا ، جسٹس اعجا ز الااحسن اور ڈائس کے سامنے والے مائیک کی آواز کے معیار کو درست کیا گیا۔
سات رکنی لارجر بنچ ایک گھنٹہ اور سات منٹ بعد بارہ بج کر تین منٹ پر دوبارہ عدالت میں آیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ابھی منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز ہی کیا تھا کہ جسٹس عمر عطابندیال گویا ہوئے کہ ’میرا خیال ہے ہم کارروائی کو مزید آگے نہیں بڑھاتے، ہم بنچ کی ازسر نو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں، چیف جسٹس کو معاملے کی جلد سماعت کیلئے کہیں گے، ہم میں سے کچھ جج صاحبان بنچ کا مزید حصہ نہیں بننا چاہتے، واضح کرنا چاہتے ہیں بنچ سے علیحدگی اختیار کرنے والے جج صاحبان اپنے طور پر الگ ہو رہے ہیں، میرے فاضل دوست جسٹس طارق مسعود کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں آپ کی درخواست پر اٹھائے گئے اعتراضات کے سبب بنچ سے الگ نہیں ہورہا، میں نے پہلے سے بینچ سے علیحدگی کے لیے ذہن بنا رکھا تھا۔‘
اس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے ایک پرچی پر لکھی ہوئی تحریر پڑھتے ہوئے کہا ’ہم ججز نے حلف اٹھا رکھا ہے کہ جیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں ہم نے اپنے حلف پر عمل کرنا ہے، جج کا حلف کہتا ہے بے خوف و خطر اور بغیر کسی لالچ کے آئین کے تحت فیصلہ کیا جائے، ہم نے حلف اٹھا رکھا ہے کہ بطور جج ہمارا کنڈکٹ درست ہو گا، میرے جج کے منصب تقاضا ہے کہ میں انصاف پر مبنی فیصلے کروں۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیے بغیر مزید کہا ’ہمارے ساتھی جج کی طرف سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوسناک ہیں، میں نے بطور جج قانون پر عمل درآمد کرنے کا حلف اٹھایا ہے، ساتھی جج کا اعتراض بلا جواز، نامعقول اور نامناسب ہے، درخواست میں اٹھائے گئے اعتراض پر نہیں بلکہ اپنی منشا کے مطابق بینچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں۔‘
ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا ’میں اپنے موکل کی طرف سے ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’موکل کو چھوڑیں اپنی بات کریں۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ بنچ سے الگ ہونے والے جج صاحبان کا اقدام انتہائی احسن ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کسی حد تک جذباتی لہجے میں کہا ’یہ کوئی طریقہ کار نہیں ججوں کو بنچ سے الگ ہونے کا کہا جائے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بنچ سے الگ ہونے کے فیصلے سپورٹ نہیں کرتے، میری تشویش ہے، سائل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انصاف کے لیے اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کرے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اعتراض کرے فلاں جج میرا مقدمہ نہ سنے، بس اب اس معاملے کو یہیں ختم ہونا چاہیے۔‘
بعد ازاں عدالت نے نئے بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بجھوا دیا۔