جسٹس فائز کیس، عدالت میں ہنگامہ آرائی
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ایک وکیل کا بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال پر اعتراض سامنے آیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ میں نے آپ کیخلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے، آپ بینچ سے الگ ہو جائیں۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ میرے خلاف ریفرنس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی۔ جسٹس مقبول باقر نے وکیل سے کہا کہ آپ روسٹرم سے ہٹ جائیں,جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ کا لہجہ درست نہیں۔
وکیل نے کہا کہ مجھ پر توہین عدالت لگانی ہے تو لگا لیں عدالت سے نہیں جاؤں گا۔
فل کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی کو طلب کیا جنہوں نے وکیل کو نشست پر بٹھانے اور عدالت کے روسٹرم سے ہٹانے کی کوشش کی۔
اس دوران وکیل نے عدالت میں ہنگامہ آرائی کی۔ اور پوچھا کہ ان کے جسٹس عمر عطا کے خلاف ریفرنس کا سٹیٹس کیا ہے۔ ”کچھ معلوم نہیں میرے ریفرنس پر کیا کارروائی ہوئی۔“
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواستوں کی سماعت کے کا آغاز کیا ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ان کا جسٹس عمر عطا کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے وکیل سے تعلق نہیں۔ ”جو کچھ ابھی یہاں ہوا اس پر افسوس ہے۔“
صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز کی درخواست پر ان کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ 2004 میں جسٹس قاضی فائز کی لاء فرم کو سب سے زیادہ ٹیکس دینے پر ستارہ امتیاز کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
”جسٹس قاضی فائز عیسی نے 2009 میں چھتیس ملین روپے کی آمدن ظاہر کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی جن حالات میں چیف جسٹس بلوچستان بنے معزز جج صاحبان اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔“
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جج کو اس کے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے۔
”جسٹس قاضی فائز عیسی کو کوئٹہ بم دھماکہ کیس میں ایک رکنی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ کوئٹہ دھماکہ کیس میں وکلاء سمیت 75 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ میرے موکل نے کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں اہم سوالات اٹھائے۔“
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 16 فروری 2019 کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا۔
”فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا گیا میڈیا نے غیر ضروری کوریج دی، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں آئی ایس آئی رپورٹ پر بات کی گئی۔ “
منیر اے ملک نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں شیخ رشید،اعجاز الحق اور پی ٹی علماء ونگ کا دھرنا شرکاء کے حق میں بیانات پر بات کی گئی۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں فوجی آمر پرویز مشرف کا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر بھیجنے اور وکلاء تحریک کا زکر کیا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا گیا دھرنے کے سبب سائلین اور ججوں کو آزادانہ نقل و حرکت میں مشکلات پیش آئیں۔
ادھر جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے جواب الجواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں۔
”صدارتی ریفرنس کا مقصد ججوں کی عیب جوئی اور انکو خاموش کرانا ہے۔ اہلیہ اور بچے میرے زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا علم نہیں۔“
جواب میں کہا گیا ہے کہ اہلیہ اور بچوں کی زیر ملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح سے الزام لگا کر میری عوامی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
پہلی جائیداد 2004 میں دو لاکھ چھتیس ہزار پاؤنڈ یعنی پاکستانی دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے میں خریدی۔
جواب میں لکھا گیا ہے کہ دیگر دو جائیدادیں 2013 میں بالترتیب دو لاکھ پینتالیس پاؤنڈ اور دو لاکھ ستر ہزار پاؤنڈ میں خریدیں۔ تمام جائیدادوں کی مالیت ملکر بھی کراچی، لاہور اور اسلام کے پوش علاقوں میں ایک کینال کی قیمت سے کم ہے۔
”کراچی میں 1600 مربع گز کا گھر ہے جو پچھلے دس سال سے خالی ہے۔ بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ اور جج سپریم کورٹ اسلام کوئٹہ اور اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں۔ لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں نہ ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔“