احتجاج شہریوں کا حق ہے، ہائیکورٹ
Reading Time: 2 minutesاویس یوسفزئی ۔ صحافی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ احتجاج کی اجازت دینا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے ۔ قانون پسند شہریوں کو پر امن احتجاج کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، تاہم ریاست غیر معمولی حالات میں قومی سلامتی کے معاملے پر کسی فرد کو احتجاج کا حق استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے دنیا کی کوئی بھی عدالت شہریوں کے احتجاج کا بنیادی حق ختم نہیں کرسکتی ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے خلاف شہری حافظ احتشام اور مقامی وکیل ریاض حنیف راہی کی درخواستوں پرسماعت کی ۔ ، درخواست گزار وکیل نے کہا کہ بادی النظر میں دھرنے اوراحتجاج کا اعلان کرنے والوں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے دنیا کی کوئی بھی عدالت یہ حق ختم نہیں کرسکتی۔ عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ غیر مسلح افراد کا پر امن احتجاج ان کا آئینی حق ہے جس سے شہریوں کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ پر امن احتجاج سے دیگر شہریوں کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ پر امن احتجاج کرنے والوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کچھ شرائط اور پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ احتجاج کے لیے جگہ مختص کرنے اور مارچ میں شامل افراد کے لیے روٹ متعین کرنے کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ریاست غیر معمولی حالات میں قومی سلامتی کے معاملے پر کسی فرد کو احتجاج کا حق استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ پر امن اور غیر مسلح رہیں اور عائد کردہ شرائط پوری کریں۔ چیف کمشنر نے درخواست پر فیصلہ نہیں کیا اس لیے احتجاج روکنے کی درخواستیں مفروضوں پر مبنی ہونے کے باعث نمٹائی جاتی ہیں۔ احتجاج کی اجازت دینے کا اختیار صرف انتظامیہ کو ہے، عدالت ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔