بلوچستان میں 164 چیک پوسٹیں مگر سمگلنگ جاری
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں قانون سازوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ سمگلنگ سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور سیکورٹی ادارے اس کو روکنے میں ناکام ہیں۔
محکمہ کسٹم کوئٹہ کے چیف کلیکٹر نے کمیٹی اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دنوں سکریپ کے تین ٹرک پکڑے جو مِس ڈیکلریشن کر رہے تھے۔ مِس ڈیکلریشن سے ایک ٹرک پر قومی خزانے کو چالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے پوچھا کہ جو تین ٹرک پکڑے ان کے خلاف کسٹم ایکٹ کی کونسی شق لگائی؟ چیف کلیکٹر نے کہا کہ کسٹم ایکٹ کی سیکشن 32 کے تحت کاروائی کی جا رہی ہے۔
سینیٹرز نے کہا کہ سیکشن 32 کیسے لگایا کیا کسٹم ایکٹ کا سیکشن 2 ایس لگایا جانا تھا۔ چیف کلیکٹر نے کہا کہ سیکشن 2 ایس کسٹم ایکٹ بھی لگایا مگر طلب کرنے پر دستاویزات پیش نہ کر سکے جس پر قانون سازوں نے برہمی کا اظہار کیا۔
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں کہ چیف کلیکٹر نے کیس درست بنایا یا غلط۔ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک سو چونسٹھ چیک پوسٹ ہونے کے باوجود سمگلنگ ہو رہی ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس کو ایف بی آر کے ممبر حامد عتیق نے بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ ایف بی آر کے تیز رفتار ریفنڈ کے سسٹم فاسٹر پر سمجھنے کے ایشوز ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد والے برآمد کنندگان کے مسائل حل کر دیے۔ کراچی والوں کو بھی جلد ٹریننگ دیں گے۔
ممبر ایف بی آر کے مطابق فاسٹر سسٹم کے تحت ریفنڈ تین دن میں بینک اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے۔ نیا سسٹم ہے مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کے ساتھ ہر ہفتے بیٹھیں گے۔
”رواں مالی سال کل 190 ارب روپے اکٹھے ہوں گے جس میں 90 ارب روپے لوٹا دیئے جائیں گے۔ 90 فیصد لوگ مینوفیکچرز ہیں ان کو سسٹم سے فائدہ ہے۔“
ممبر ایف بی آر نے بتایا کہ کپڑے کی 8 ارب ڈالر کی مقامی مارکیٹ اور 12 ارب ڈالر کی برآمدی مارکیٹ ہے۔
”ہماری کوشش صرف یہ ہے کہ مقامی مارکیٹ میں بغیر ٹیکس کپڑا نہ فروخت ہو۔ یہ نیا سسٹم ہے جس میں ابتدائی طور پر مسائل آئیں گے۔ یارن ایکسپورٹ پر ٹیکس کو 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔“