جسٹس فائز کا ٹرائل کیوں ہو رہا ہے؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کے دوران وکیل منیر اے ملک کے دلائل جاری ہیں جبکہ سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی گئی ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ 15 اکتوبر کو ایک سوال رکھا گیا کہ کیا کوئی تحفہ دیا گیا تھا۔ جواب ہے کہ 2017 تک میرے موکل نے اپنی فیملی کو کوئی تحفہ نہیں دیا۔
منیر اے ملک نے بتایا کہ درخواست گزار نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی، داماد نے قصور میں جائیداد خریدی۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کب تشکیل ہوا۔ وکیل نے بتایا کہ 2018 میں ازخود نوٹس لیا گیا جو بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق تھا، اس میں اٹارنی جنرل نے ایک درخواست دی۔
وکیل منیر ملک نے کہا کہ 10 مئی 2019 کا دن تھا جو میری نظر میں طویل دن ہے، لانگسٹ ڈے، فلم کی طرح۔ اس دن ایک خط لکھا گیا اسسٹنٹ کمشنر ضیاء احمد بٹ کو۔ یہ خط درخواست گزار کی ٹیکس تفصیلات سے متعلق تھا۔ خط کمشنر کو 10 مئی کو ملا اور اسی دن آگے بھیج دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 مئی کو انٹرنیشنل کمشنر ٹیکس نے شہزاد اکبر کو خط لکھا۔ شکایت کنندہ کی شکایت پر وزیراعظم کے پاس جانے سے پہلے ہی تفتیش شروع کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز کے 7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوگئے تھے۔ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے 10 اپریل کو ایسٹ ریکوری یونٹ میں درخواست دی جو نامکمل تھی۔ چیرمین ایسٹ ریکوری یونٹ نے شکایت کنندہ سے ملاقات کی۔
منیر ملک نے بتایا کہ وحید ڈوگر نے کچھ دستاویزات دیں جن کا بعد میں پوچھا نہیں گیا۔ وحید ڈوگر نے نہیں بتایا کہ دستاویزات کہاں سے حاصل کیں۔ شہزاد اکبر نے وحید ڈوگر سے ملاقات کے بعد وزیر قانون کو تحقیقات کا کہا۔
منیر ملک نے بتایا کہ شکایت وزیر اعظم، صدر یا کابینہ کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کبھی نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر نے دستاویزات کی تحقیق کیسے کی۔
اس سے قبل جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ کو وکیل حامد خان نے بتایا کہ “ہم نے التواء کہ درخواست دائر کی تھی، درخواستیں تین بار کونسل کی طرف سے ہیں۔“
حامد خان نے کہا کہ دو وجوہات کے سبب التوا مانگا گیا ہے، رواں ہفتے سپریم کورٹ بار کے انتخابات ہیں جبکہ سیاسی حالات کی وجہ سے سفری دشواریوں اور آمد و رفت کی صورت حال کے سبب وکلاء پیش نہیں ہو سکیں گے۔
پشاور، کوئٹہ اور کراچی سے وکلاء نہیں آسکے۔ اگلے ہفتے تک سماعت ملتوی کی جائے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے التوا کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ مقدمے کے لیے کراچی سے آئے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ہمارا بھی یہ ہی موقف ہے۔ ”میں نے اپنے دوست جج سے کہا وہ یہ بات کہہ دیں کیونکہ ان کی زبان مجھ سے میٹھی ہوتی ہے۔“
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وہ ایڈووکیٹ منیر اے ملک کو سننا چاہیں گے۔ حامد خان نے پھر استدعا کی کہ 4 نومبر سے سماعت شروع کریں۔ بینچ کے سربراہ نے جواب دیا کہ اس کیس کو سننے کے لیے ہر بار دس ججز اکھٹے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر التواء سے ادارے کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ ہے اس نے اپنا کام کرنا ہے۔ منیر ملک یہاں موجود ہیں اور دلائل دینا چاہتے ہیں۔ ’ہمارے ایک معزز جج صاحب نے اسلام آباد سے باہر جانا تھا۔ مقدمے کی حساسیت کے سبب جج صاحب نہیں گئے۔ اس کیس کی حساسیت کے پیش نظر وہ بھی ہفتے میں تین دن آئیں گے۔ یہ عام کیس نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے ایک معزز ساتھی جج کا مقدمہ ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا ٹرائل کیوں ہورہا ہے۔ منیر اے ملک نے درست کہا کہ یہ ٹرائل سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے۔‘ وکیل خامد خان نے کہا کہ وکلا کو بھی اس حوالے سے کم تشویش نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ یہاں پر عدالتی کارروائی کو تحریری صورت میں لکھنے کے لیے رضاکارانہ وکلاء موجود ہیں، وہ غیر حاضر وکلا تک کارروائی اور عدالتی سوالات کی تفصیلات پہنچا دیں گے۔
حامد خان کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی گئی جس کے بعد منیر اے ملک نے باقاعدہ دلائل دیے۔