ذاتی عناد پر بڑا جرم بھی دہشت گردی نہیں
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کی پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ قوانین میں ترمیم کرکے دہشت گردی کی ازسر نو تعریف و تعین کرے اور ایسے جرائم کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون سے نکال دیا جائے جو کہ ذاتی عناد کے تحت سرزد ہوں۔
چیف جسٹس آصف کھوسہ نے تحریر کردہ ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ صرف وہ جرائم دہشت گردی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں جو منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہوں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سنہ 1974 سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مختلف قوانین متعارف کروائے گئے۔
انسداد دہشت گردی کا قانون انتہائی وسیع ہے اور اس قانون میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی اقدمات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے دو اپریل کو دہشت گردی کی تعریف سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
59 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف و ہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے جبکہ منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں، کاروباری برادری، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔
فیصلے میں تجویز دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل ایسے تمام جرائم کو ختم کرے جو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے۔
فیصلے کے مطابق کسی منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں تاہم ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا دہشت گردی نہیں ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث پولیس، افواج پاکستان اور سرکاری ملازمین کے خلاف پرتشدد واقعے میں ملوث ہونا بھی دہشت گردی نہیں۔ھفیصلے میں کہا گیا ہے کہ اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کرنے کے سبب دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے۔