جسٹس فائز کے خاندانی اثاثے
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف آئینی درخواستوں پر سماعت میں درخواست گزار جج کی لیگل ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے سنہ 2013 میں ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، ٹیکس گوشواروں میں معلومات مخفی رکھنے پر نوٹس دیا جاتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا دو ہزار تیرہ میں ٹیکس گواشوارے جمع کرانا اُنکے خود کفیل ہونے کو ثابت کرتا ہے۔
رپورٹ: ج ع
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔گذشتہ سماعتوں سے جج صاحبان کے درمیان کرا س ٹاک بھی دیکھنے میں آئی ۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال اور ایڈووکیٹ بابر ستار کے درمیان دلچپ مکالمہ بھی ہوا ۔جسٹس منیب اختر نے کہا بار ثبوت ٹیکس فائلر پر ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ بولے کمشنر یا محکمہ نوٹس دینے کا مجاز ہے ۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈووکیٹ بابر ستار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کے دلائل بڑے دلچسپ ہیں اور کراس ٹاک بھی ہورہی ہے ،آپ ایک ایک کرکے سوالات کا جواب دیں ۔ایک موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک سوال اٹھایا تو بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس منیب اختر آپ سےکچھ پوچھ رہےتھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس شہری اور ریاست کے درمیان معاملہ ہے،کوئی شخص کسی دوسرے کے ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا ،انکم ٹیکس قانون کا اطلاق آ مدن پر ہوتا ہے اثاثوں پر نہیں ،جس رقم پر ٹیکس لاگو نہ ہو اس پر انکم ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کے شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی ،ٹیکس قوانین میں منی ٹریل کو کوئی ذکر نہیں، منی ٹریل کا معاملہ پانامہ کیس میں پہلی بار سامنے آیا، منی ٹریل آف شور کمپنیوں میں سامنے لانا ہوتی ہے جہاں اصل مالک کا علم نہ ہو، ٹیکس ادا کرنا اور گوشوارے جمع کرانا الگ الگ چیزیں ہیں، قابل ٹیکس آمدن نہ بھی ہو تو بھی گوشوارے جمع کرائے جا سکتے ہیں، ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ویلتھ سٹیٹمنٹ نہ جمع کروانے پر 25 ہزار جرمانہ ہے ،اس اثاثے کو ظاہر کرنا کبھی جسٹس قاضی فائز عیسی کی ذمہ داری نہیں تھی،یہ اثاثہ کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا رہے ہی نہیں۔
ایڈووکیٹ بابر ستار کا دلائل میں کہنا تھا جسٹس فیصل عرب نے خواجہ آصف نااہلی کیس فیصلے میں کہا ٹیکس کا معاملہ طے کرنا حکومتی اتھارٹیز کا کام ہے ،اگر حکومتی اتھارٹیز ٹیکس معاملہ کا تعین نہ کریں تو عدالت معاملے کونہیں دیکھ سکتی ،ٹیکس قانون آمدن سے متعلق ہے اس کا اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ،عمران خان نااہلی کیس میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے آف شور کمپنی بنانا غلط کام نہیں ،اگر اہلیہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرے یا ٹیکس ریٹرنز میں تفصیلات چھپائے تو اُس کا جواب شوہر سے طلب نہیں کیا جاسکتا ۔
ایڈووکیٹ بابرستار نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا براہ راست الزام عائد نہیں کیا گیا ،صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بے نامی جائیداد بنانے یا کسی اور ذریعہ سے اثاثے بنانے کا الزام بھی عائد نہیں کیا گیا ،صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزاعائد کیا گیا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے دو ہزار تیرہ میں ٹیکس گواشوارے جمع کرائے ،اگر ٹیکس گواشوارے جمع کرانے میں کچھ مخفی رکھا گیا تو اُس کا انکو نوٹس دینا چاہیے تھا ،دو ہزار تیرہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا اس بات کا عکاس ہے کہ وہ خود کفیل ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھا یا کیا ٹیکس آ فیسر نوٹس جاری کئے بغیر اپنی راے دے سکتا ہے ۔ایڈووکیٹ بابر ستار نےجواب دیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ کو ایف بی آ ر نے کبھی نوٹس جاری نہیں کیا ،ٹیکس کمشنر نے اپنے طور 116 کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع نہ کروانے کا الزام نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 2013 کے ویلتھ سٹیٹمنٹ فارم کے مطابق اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا علم ہونا لازم ہے ۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے جواب دیا ٹیکس قوانین میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جواب دہ نہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا بیوی شوہر کے زیر کفالت نہ بھی ہوتو اس کے اثاثوں کا علم ہونا ضروری ہے،قانون میں اہلیہ کا ذکر ہے زیر کفالت کا نہیں ۔ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2013 میں اپنے گوشوارے جمع کروائے تھے۔کیس کی مزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی۔