پاکستان پاکستان24

سپریم کورٹ کا فوج کے حراستی مراکز پر سوال

نومبر 14, 2019 6 min

سپریم کورٹ کا فوج کے حراستی مراکز پر سوال

Reading Time: 6 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دس لاکھ لوگوں کے تحفظ کے نام پر اگر ایک شخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو عدالت اُس ایک شخص کے ساتھ کھڑی ہوں گی کیونکہ اُس ایک مسکین، مجبور اور غریب شخص کا داد رسی کے لیے کورٹ اور آئین کے سوا کوئی وارث نہیں۔

پاکستان کے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ امریکہ نے اپنے ملک کی حدود سے باہر غیر ملکی قیدیوں کے لیے گوانتاناموبے جیل بنائی لیکن ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے شہریوں کو حراستی مراکز بنا کر رکھا جہاں انھیں بنیادی حقوق نہیں ملتے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ سابق قبائلی علاقوں فاٹا اور پاٹا میں فوج طلب کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ گیارہ سال بعد قبائلی علاقوں (فاٹا، پاٹا) میں فوج کی تعیناتی اور حراستی مراکز کے قیام کے قوانین کو جانچنے کے لیے مقدمہ زیر سماعت ہے۔

رپورٹ: ج ع

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا، پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کی۔ آغاز پر حکومت نے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور کے ذریعے حراستی مراکز اور اُن میں قید افراد سے متعلق سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کیں۔

مقدمے میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے، حراستی مراکز کے قیام اور فوج کے حراستی مراکز کے امور کی انجام دہی پر عدالتی معاونت کی گئی۔ عدالت نے بتایا گیا انتظامیہ کی مدد کیلئے گیارہ سال قبل دو ہزار آٹھ میں فوج کو بلایا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کے درمیان دلچسپ مکالمے ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر کو اختیار ہے کہ حراستی مرکز کا انچارج مقرر کرے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا حراستی مراکز کے سربراہ سویلین ہیں یا فوجی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا صوبائی جیل حکام حراستی مراکز کے انچارج ہیں، زیر حراست شخص کے اہلخانہ رہائی کی درخواست دے سکتے ہیں، درخواست ملنے پر مجاز افسر انکوائری کرتا ہے۔ مجاز افسر کی انکوائری رپورٹ پر زیر حراست شخص کی رہائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے فاٹا ریگولیشن دو ہزار گیارہ پڑھنا شروع کیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون میں لکھا گیا ہے ایک شخص کو اختیار دیا گیا وہ اپنا اختیار دوسرے کوبھی منتقل کر سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے قیدیوں کی مدت حراست کا تعین کیا گیا ہے یا لامحدود اختیار ہے۔جسٹس گلزار احمد نے قانون کی ایک اور شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا پورے ملک میں کہیں سے بھی اٹھا کر حراستی مراکز میں قید کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے متعلقہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج پہلے حراستی مراکز میں قید کرتی ہے پھرٹرائل کرکے سزا دی جاتی ہے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا یہ دہرا ٹرائل نہیں ہے۔

کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے کہا کہ حراستی مرکز میں قید ہونا سزا نہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برجستہ بولے آپ کا جواب کسی ناول کی طرح عجیب ہے، آپ کہہ رہے ہیں حراستی مرکز میں قید ہونا سزا نہیں۔

کیپٹن ریٹائڈ انو رمنصور نے فاٹا ریگولیشن پڑھتے ہوئے عدالت کو بتایا حراستی مراکز کے قیدیوں پر تشدد نہیں کیا جاتا ،نفسیاتی اور جسمانی بحالی کی جاتی ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا جو باتیں آپ کر رہے ہیں کیا وہ کاغذوں کی حد تک ہیں یا عملی طور پر بھی ایسا ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت زمینی حقیقت جاننے کے لیے کمیشن مقرر کر کے حراستی مراکز میں بھیج سکتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف سوال پوچھ رہا ہوں، ہمیں دستاویزات سے ثابت کریں، میڈیا پر بھی حراستی مراکز کے حوالے خبریں نہیں دیکھیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کو حراستی مراکز تک رسائی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے فاٹا، پاٹا قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ لکھا گیا ہے کہ حاصل کردہ معلومات پر قانو ن شہادت کا اطلاق نہیں ہوگا، پھر ٹرائل کرنے کا کیا ضرورت ہے، براہ راست سزا دے دیں، اللہ کا شکر ہے ہماری نظر میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں آیا۔“

انہوں نے کہا کہ ایک اور شق 192 دیکھ لیں اس میں لکھا ہواہے کوئی فوجی افسر یا فوجی افسر کی طر ف سے کوئی اور بیان دے تو اُس بیان کو حتمی تصور کیا جائے گا، بیان سزا دینے کیلئے کافی ہے، اگر ایسا ہے تو عام عدالتوں سے لوگ بری ہوتے ہیں، تمام عام قیدیوں کو حراستی مراکز میں لے جاکر قید کردیں اور فوجی افسر سے بیان دلوائیں اور سزا دیدیں ، اس قانون کے تحت ٹرائل کی کیا ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے امریکہ میں منعقدہ ایک بین الااقوامی انسداد دہشت گردی کانفرنس میں امریکی جج سے متعلق کا واقعہ سنایا پھر مسکراتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا آپ بھی اس محاورے پر یقین رکھتے ہیں ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔“

کیپٹن ریٹائرڈ انو رمنصور نے جواب دیا کہ محبت میں سب جائز ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جنگ کے دوران کوئی دشمن ملک کا قیدی بھی پکڑا جائے تو اُس پر جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برجستہ کہا کہ امریکی جج کی بات ہورہی ہے، ہمیں قرآن و سنت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، اسلام نے مغرب سے زیادہ قیدیوں کو حقوق دیے ہیں، آئین پاکستان کے مطابق قرآن و سنت سے متصادم قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ کیا فاٹا پاٹا قانون کو قرآن و سنت کے اصولوں پر پرکھا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وسطیٰ ایشیا میں ایک اسلامی فوج نے ملک پر قبضہ کیا وہاں کے شہریوں سے ناورا سلوک کیا گیا، محکوم لوگ اپنا مقدمہ لے کر قاضی کے پاس چلے گئے، قاضی نے محکوم لوگوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مسلمان فوج کو جنگ سے جیتا ہوا مقبوضہ علاقہ خالی کرنے کا حکم دے دیا کیونکہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے جنگی اصول توڑے تھے۔

اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصورنے کہا حراستی مراکز کے قیدیوں کی جسمانی اور نفسیاتی بحالی جاتی ہے۔

اس بات پر کمرہ عدالت میں بیٹھے وکیل اور مقدمہ سننے کے لیے آئے افراد مسکرا دیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ”ہم فاٹا، پاٹا کے لیے آئین کے مطابق ایک نیا قانون متعارف کروا رہے ہیں۔“

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا جب آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا ، پاٹا ختم ہوکر صوبے میں ضم ہوگیا تو ریگولیشن دو ہزار گیارہ کا اطلاق اب بھی کیسے ہورہا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانون کی شقوں کو مکمل پڑھ لیں قدم بقدم چلیں۔ اٹارنی جنرل بولے کہ میں اپنے دلائل میں اس پر بات کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ قانون جس کے تحت فوجی افسر کے بیان پر سزا ہوجاتی ہے ،دنیا کی کس عدالت می اسے درست قرار دیا جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سماعت کل دوبارہ ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کل جمعہ ہے۔

چیف جسٹس بولے اس سے زیادہ نیک کام اور کیا ہوسکتا ہے ،گیارہ سا ل ہوچکے، اس معاملے کو قالین کے نیچے دبا نہیں سکتے ،آپ کی طر ف سے حراستی مراکز کے قیدیوں سے متعلق رپورٹ کا لفافہ ہم نہیں ابھی کھولا نہیں پتہ نہیں کتنے ہزار لوگوں کی زندگیوں اور لاکھوں خاندانوں کے بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں ۔اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے کہاحراستی مراکز کے قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں سینکڑوں میں ہے ۔چیف جسٹس نے کہا ابھی اگر میں نے اس پر کوئی بات کی تو کمنٹری شروع ہو جائے گی ،یہ حالیہ تاریخ کا سب سے اہم آئینی مقدمہ ہے ،یہ سینکڑوں لوگوں اور اُنکے خاندانوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے ،کس نے اسمبلی میں بیٹھنا اور کس نے نہیں یہ زیادہ اہم نہیں ہے ،کسی کی آزادی زیادہ اہم ہے۔

اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائر ڈ انور منصور نے کہا دس لاکھ لوگوں کی زندگیوںکی حفاظت کیلئے ایک ہزار لوگوں کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے دس لاکھ لوگوں کے تحفظ کے نام پر اگر ایک شخص کو نشانہ بنایا جائے تو میں اُس ایک شخص کے ساتھ کھڑا رہوں گا اس لیے اُس ایک مسکین ،مجبور اور غریب شخص کا داد رسی کیلئے عدالت اور آئین کے علاوہ کوئی وارث نہیں، امریکہ نے اپنے ملک کی حدود سے باہر غیر ملکی قیدیوں کیلئے گوانتاناموبے جیل بنائی لیکن ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے شہریوں کیلئے حراستی مراکز بنائے جہاں انھیں بنیادی حقوق نہیں ملتے۔

فاٹا، پاٹا ریگولیشن سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیااسمبلیوں کی فعالیت کے باوجود آرڈیننس کیوں لائے جاتے ہیں، اسمبلیوں کو کیوں بائی پاس کیا جاتا ہے، اب تو کوئی ایمرجنسی بھی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے سابق قبائلی علاقوں میں قائم حراستی مراکزاوربدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے کی مثال دے کر حکمنامہ لکھوایا کہ ”حکومت کی طرف سے حراستی مراکز اور قیدیوں کی لفافے میں بند تفصیلا ت جمع کرائیں۔ ہم سربمہر رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو بجھواتے ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ رپورٹ کو اپنی تحویل میں رکھے، اگر رپورٹ کی ضرورت ہوئی تو عدالتی حکمنامے کےزریعے منگوا لیں گے۔“

سماعت جمعہ کو ساڑھے دس بجے دوبارہ ہوگی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے