پاکستان پاکستان24

سپریم کورٹ: ایف ڈبلیو او کی مجوزہ سیمنٹ فیکٹری کا مقدمہ

Reading Time: 2 minutes بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ زمین ایکوائر کرنا حکومت کا کام ہے اور وہ بھی وزارت دفاع کے ذریعے اگر کسی دفاعی تنصیب کے لیے ضرورت ہو۔

دسمبر 2, 2019 2 min

سپریم کورٹ: ایف ڈبلیو او کی مجوزہ سیمنٹ فیکٹری کا مقدمہ

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ میں درجنوں افراد نے فوج کے تعمیراتی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کی مجوزہ سیمنٹ فیکٹری کے لیے آبائی گاؤں کی زمین حاصل کیے جانے کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔

پیر کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بینچ نے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے رہائشی افراد کی گاؤں سے بے دخلی اور زمین ایکوائر کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے وزارت دفاع، اٹارنی جنرل اور صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا۔

درخواست گزاروں کے وکیل عمران حسن علی نے عدالت کو بتایا کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) ہری پور کے گاؤں کھوئی ناڑہ میں سیمنٹ فیکٹری لگانا چاہتی ہے اور اس کے لیے مقامی لوگوں سے 13 سو کنال زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی جا رہی ہے۔

وکیل کے مطابق زمین ایکوائر کرنے کے لیے کلیکٹر نے سیکشن 17 کے تحت نوٹس جاری کر کے کہا کہ ہنگامی صورتحال میں مقامی افراد قانون کے سیکشن پانچ کے تحت اعتراض کرنے کے مجاز نہیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ زمین کسی عوامی نوعیت کے منصوبے کے لیے نہیں حاصل کی جا رہی بلکہ اس کا مقصد کمرشل ہے اور سیمنٹ فیکٹری منافع بخش کاروبار ہے۔ وکیل کے مطابق ایف ڈبلیو او فوج کا ذیلی ادارہ ہے اور یہ وزارت دفاع کے ماتحت ہے مگر براہ راست زمین ایکوائر کر رہا ہے جو رولز آف بزنس کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے بتایا کہ مقامی افراد کو زبردستی ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کیے جانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

وکیل نے کہا کہ سیمنٹ فیکٹری لگانے سے ہزاروں درخت کٹ جائیں گے اور تین قریبی گاؤں میں ماحولیاتی بگاڑ پیدا ہوگا۔ ’تین گاؤں کے درمیان یہ علاقہ ہے جس پر فیکٹری لگائی جائے گی جس سے مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ زیرزمین پانی خشک ہوجائے گا۔‘

بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ زمین ایکوائر کرنا حکومت کا کام ہے اور وہ بھی وزارت دفاع کے ذریعے اگر کسی دفاعی تنصیب کے لیے ضرورت ہو۔ ایف ڈبلیو او یہ کیسے کر سکتی ہے اس بارے میں حکومت سے پوچھ لیتے ہیں۔

عدالت نے وزارت دفاع سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے