پاکستان24

جسٹس فائز کیس: ججوں کی جاسوسی پر سوال

دسمبر 3, 2019 2 min

جسٹس فائز کیس: ججوں کی جاسوسی پر سوال

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں، انسانی وقار کا معاملہ ہے اس حوالے سے قانونی سازی ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کے دوران دیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنا منتخب حکومت کو تحلیل کرنے کیلئے کافی ہے۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے سماعت کی.کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنا منتخب حکومت کو تحلیل کرنے کیلئے کافی ہے، بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جاسوسی، ٹیلی فون ٹیپنگ اسلام کے خلاف ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا جاسوسی سے گھر کا سکون برباد ہوتا ہے، عدم تحفظ پھیلتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے مزید کہا بے بھٹو کیس میں کہا گیا آرٹیکل 14 انسانی وقار، اور پرائیویسی کا ضامن ہے،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس میں بھی جاسوسی کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کیا انٹیلی جنس حکام کو ایسا قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ فون ٹیپنگ کرسکے. ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے جواب دیا ایسے کسی قانون کے حوالے سے مجھے کوئی علم نہیں،امریکہ میں ٹیلیفونک ٹیپنگ کیلئے جوڈیشل افسر کی اجازت ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا انسانی وقار کا معاملہ ہے، فون ٹیپنگ کیلئے کوئی قانون ہونا چاہیے. جسٹس فیصل عرب نے کہافوجداری مقدمے میں ٹیلی فونک معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جاسوسی سے کیا مراد ہے،کیا کسی کا پیچھا کرنا جاسوسی ہے یا کسی کے بیڈ روم میں کیمرے لگانا جاسوسی کے زمرے میں آتا ہے،کیا کسی عدالت کا ایسا کوئی حکم موجود ہے. منیر اے ملک بولے میرے علم میں ایسا نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال برجستہ بولے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہاجج اور اسکے اہل خانہ سمیت کوئی بھی جاسوسی کا نشانہ بن سکتا ہے. جسٹس عمر عطا بندیال نے تائید کرتے ہوئے کہا کوئی بھی اسکا شکار ہوسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں مزید کہا جاسوسی کی بنیاد پر اکٹھا کیا گیا مواد عدالت اٹھا کر پھینک دے،سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور انسانی تضحیک کی بنیاد پر اکھٹے کیے گئے مواد کو تسلیم نہ کرے، ریفرنس خارج کیا جائے . جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا ہم حقائق سے نتیجہ اخذ کررہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا نام ہسپانوی زبان میں ہے یہ بات بین الاقوامی ماہر اور شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو یہ کیسے پتہ چلی،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کل شفاف ٹرائل ایکٹ 2013 کو پڑھ کر آئیں. کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے