ملک ریاض کی منی لانڈرنگ پر حکومت خاموش کیوں؟
Reading Time: 2 minutesبرطانیہ اور پاکستان میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ٹھیکیدار ملک ریاض حسین سے حاصل کی گئی جرمانے کی رقم سٹیٹ بینک میں منتقل کر دی گئی ہے تاہم پاکستان میں کسی وزیر یا خود وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے پریس کانفرنس یا ٹویٹ نہیں کی۔
برطانیہ نے غیر قانونی رقم منتقلی پر ملک ریاض کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں جس کے بعد انہوں نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ تصفیہ کرتے ہوئے 50 ملین پاؤنڈ کی رقم اور 140 ملین پاؤنڈ کی پراپرٹیز لندن میں حکام کے حوالے کیں۔
خیال رہے کہ چند ماہ قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے احتساب کے معاملے پر معاون شہزاد اکبر کی لندن میں ملک ریاض سے ملاقات کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما ماضی میں ملک ریاض کا جہاز بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ برطانوی حکام کو ملک ریاض کی ٹیکس چوری اور جائیداد چھپا کر رکھنے کا علم بھی تحریک انصاف کے شہزاد اکبر کی بھیجی گئی دستاویزات کے ذریعے ہوا۔
ذرائع کے مطابق شہزاد اکبر کی لندن میں ملک ریاض سے ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
شہزاد اکبر نے پانامہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یا جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سے معلومات حاصل کر کے حسین نواز کے بارے میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے رابطہ کیا تاہم ان کے ٹیکس گوشوارے درست نکلے۔
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنی تحقیقات کے دوران حسین نواز کی جانب سے بیچی گئی جائیدادوں کی تفتیش کے دوران خریداروں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں جن میں سے ایک ملک ریاض حسین تھے۔
نیشنل کرائم ایجنسی نے اس وقت ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جب یہ پتہ چلا کہ انہوں نے برطانیہ میں ٹیکس ہی ادا نہیں کیا۔
ملک ریاض نے حسین نواز سے پراپرٹی خریدتے وقت مختلف تاریخوں میں مختلف اکاؤنٹس سے ادائیگی کی تھی۔ تحقیقات کے دوران ملک ریاض نیشنل کرائم ایجنسی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کہ ان کے اکاؤنٹس میں 75 کروڑ پاؤنڈ کس ذریعے سے آئے جس کے بعد حکام نے ان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے اور ان کو تصفیہ کر کے 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے پڑے۔