تبدیلی لانے والے ڈرتے نہیں، چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ان کے اندر بلوچ خون ہے جو ان کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے اکساتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ”فوری اور سستے انصاف کی قومی کانفرنس“ سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ دو تین دن قبل پنجاب امراض قلب ہسپتال میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا، واقعے سے متعلق معاملہ زیر سماعت ہے اس کے حقائق پر بات کرنا نامناسب ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پورا واقعہ چونکا دینے والا اور افسوسناک ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں گزشتہ اٹھارہ جنوری کو بھی کہا تھا بلوچ خون میرے اندر مجھے مجبور کرنا ہے کچھ نہ کچھ کرنا ہے، بہتری کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس بنا کر اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو ڈرتے نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ”میں جہاں بھی ہوں گا دستیاب ہوں گا، میں ماڈل کورٹس کے معاملے پر دو منٹ میں جواب دیتا ہوں۔“
چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ واٹس ایپ پر بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی حالت خود بدلنے کا ہم نے ارادہ کیا اور موجودہ سسٹم اور قانون میں رہ کر ہم نے انصاف کی فراہمی کیلئے کام شروع کیا، نظام عدل میں تاخیر کے اسباب کی نشاندہی کی گئی،سب سے پہلے ہم نے مقدمات میں التوا دینا بند کیا،انگلینڈ میں کیس کی تاریخ ڈیڑھ سال کیلئے دی جاتی ہے اور جب کیس کی تاریخ آجاتی ہے پھر صرف وہی کیس سنا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گواہوں کو پیش کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے، مدعی کے بجائے پولیس اور ریاست گواہ پیش کرے گی، ماڈل کورٹس کے قیام سے انصاف کا حصول ممکن ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ زندہ کو مردہ سے پیدا کرسکتے ہیں، ہم نے امید نہیں چھوڑی ، اگر ہم کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کام ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے، ہم نے ارادہ کیا اور اللہ نے ہمت دی، ہم نے سسٹم کے اندر رہ کر ہی کام دیا، ماڈل کورٹس کے لئے ہم نے مزید کوئی پیسہ نہیں مانگا، پہلے فیصلے کے بعد ججمنٹ لکھنے میں وقت لگتا تھا، ہم نے کہا 17 دنوں کے اندر چالان آجانا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرمنل مقدمات 25 سے 30 ضلعوں میں صفر زیر التوا رہ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پہلے میں ہی برا بنتا تھا پانچ سال سے میرے بینچ میں التوا نہیں ملتا تھا، یہی وجہ سے اب جو مقدمہ آتا ہے فوری فیصلہ ہو جاتا ہے، ویڈیو لنک سے ایک مقدمہ سن رہے تھے معلوم ہوا تین ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔