مشرف کے مقدمے کا سفر
Reading Time: 3 minutesجہانزیب عباسی
پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے چھ سال بعد فوجی آمر کو پھانسی کی سزا سنائی۔ افواج پاکستان کے سابق سپہ سالار مشرف کو تین نومبر دو ہزار سات کو ایمرجنسی نافذ کرنے، آئین معطل کرنے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو نظر بند کرنے کے جرم میں آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا گیا۔
سنگین غداری کیس کے ٹرائل کی تکمیل کو چھ سال لگ گئے۔ ان چھ برسوں کو تین مرحلوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلا مرحلے میں سیکورٹی خدشات اور مشرف لیگل ٹیم کی طرف سے خصوصی عدالت کے ججوں ، صحافیوں کو دھمکانے جیسے واقعات شامل ہیں۔ دوسرا اور تیسرا مرحلہ مختلف عدالتوں میں اپیلوں سے متعلق ہے۔
پہلا مرحلہ
پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں شروع ہونے والے غداری کیس میں خصوصی عدالت کے ججوں کو بُرے القاب سے پکارا جاتا رہا۔ مشرف کی لیگل ٹیم کے ایک رکن ایڈووکیٹ رانا اعجاز نے خصوصی عدالت کے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا خصوصی عدالت کے ججز کرائے کے قاتل ہیں۔
جب بھی خصوصی عدالت پرویز مشرف کو فرد جرم عائد کرنے کے لئے ذاتی حیثیت سے طلب کرتی مشرف کی رہائش گاہ اور خصوصی عدالت (نیشنل لائبریری) کے راستے میں کہیں کسی کنارے سے کوئی دھماکا خیز مواد برآمد ہوجاتا۔ ایسی رپورٹس بھی سامنے آتیں جن میں ان خطرات کا اظہار کیا جاتا کہ سیکورٹی اداروں کے لباس پہن کر سابق گورنر پنجاب کی طرز پر مشرف پر حملہ ہو سکتا ہے۔
مشرف کی سابق قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ احمد رضا قصوری خصوصی عدالت میں آکر یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دیے کہ یہ اطلاع مل رہی ہے ،خصوصی عدالت میں دھماکا ہوسکتا ہے جس کے سبب ججز ، وکلا اور بین الااقوامی اور مقامی صحافیوں سمیت سب مارے جائیں گے۔
دوسرا مرحلہ
سیکورٹی خدشات میں جب کمی آئی تو پرویز مشرف کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ ایک دن خصوصی عدالت آرہے تھے کہ اُن کے قافلے کا رُخ موڑ دیا گیا اور وہ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) جا پہنچے، جہاں زیر علاج رہنے کے بعد بیرون ملک علاج کیلئے روانہ ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد مشرف صاحب کی پردیس سے آئی ایک ڈانس ویڈیو نے کافی دھوم مچائی۔
ایڈووکیٹ فروغ نسیم (موجودہ وزیر قانون ) کی سربراہی میں مشرف کی دوسری قانونی ٹیم جب میدان میں آئی تو مشرف کی ایک درخواست پر خصوصی عدالت نے مشرف کے ساتھ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ، سابق پی سی او جج عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر وزیر قانون کو بھی غداری کیس میں شامل تفتیش کرنےکا حکم صادر فرمایا۔
غداری کیس میں دیگر تین ملزمان کو شامل تفتیش کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ (موجودہ چیف جسٹس ) کی سربراہی میں قائم بنچ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے قرار دیا کہ فرد واحد مشرف پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
رواں برس اپریل میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مشرف اشتہاری ہیں ، جب تک پیش نہیں ہوں گے اُن کو دفاع کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
پرویز مشرف کی قانونی ٹیم کی طرف سے چھ سال گذرنے کے باوجود یہ موقف اختیار کیا جارہا ہے انھیں سنا نہیں گیا لیکن خصوصی عدالت کا کہنا ہے مشرف کو کم از کم چھ مرتبہ تین سو بیالیس کا بیان قلمبند کرانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
تیسرا مرحلہ
جب حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو تیسرا مرحلہ شرو ع ہوا ۔ خصوصی عدالت نے مشرف غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تو وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا ،وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا ۔
سترہ دسمبر منگل کے دن جب خصوصی عدالت کیس کی سماعت ہوئی تو استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ مشرف کیساتھ دیگر تین ملزمان کو شامل تفتیش کیا جائے۔ عدالت نے اس استدعا کو مسترد کیا اور مختصر فیصلے میں مشرف کو سزائے موت سنادی ۔
افواج پاکستان کے مشرف فیصلے پر ردعمل کے بعد اب مزید کتنے مرحلے آتے ہیں دیکھنا باقی ہے۔
پرویز مشرف تیس دنوں میں فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔