کالم

کرسیاں بولتی ہیں

مئی 3, 2020 2 min

کرسیاں بولتی ہیں

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سیاست جوڑ توڑ، مفاد پرستی، حلقے کی چودراہٹ، الیکٹیبلز اور اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کے علاوہ بیانات کا گورگھ دھندہ ہے، بیانات بھی ایسے جو ملکی حالات یا جماعتی نظریات پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ جماعت کی موجودہ پوزیشن کے مطابق دیے جاتے ہیں۔
پاکستانی سیاستدانوں کے بیانات کی دو اقسام ہیں۔
حکومتی بیانات اور اپوزیشن کے بیانات۔


بجٹ ہر سال مئی / جون میں پیش کیا جاتا ہے اور بجٹ آتے ہی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے روایتی بیانات کی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے حکومت کی طرف سے بیانات دیے جاتے ہیں کہ ’اس سے بہتر بجٹ ان حالات میں نہیں دیا جا سکتا تھا‘۔ یہ بجٹ غریب دوست اور عوام دوست ، عوام دوست اور کسان دوست ہے‘ , اس بجٹ سے چھوٹے بڑے کاروباری ، سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ افراد کو فائیدہ پہنچے گا۔‘
جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس بجٹ کو عوام دشمن اور آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا جاتا ہے۔


جب بھی کوئی جماعت اپوزیشن میں ہو تو اسے میڈیا کی آزادی دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز لگتی ہے لیکن جیسے ہی یہ جماعت حکومت کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تب میڈیا کسی نہ کسی ایجنڈے پر کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جو جماعت الیکشن جیت جائے اس کے لیے الیکشن صاف اور شفاف ٹھہرتے ہیں اور جو جماعت الیکشن ہار جائے اسے انتخابات میں دھاندلی کے علاؤہ کچھ نظر نہیں آتا، نوے کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگایا کرتی تھی جبکہ 2008 اور 2013 کے انتخابات کے بعد تخریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ جاری رکھی۔


ان کے علاؤہ احتجاج، دھرنے، عدالتی فیصلے اور نیب کاروائیوں پر بھی بیانات تبدیل نہیں ہوتے ، صرف یہ اہم ہے کے یہ سب کچھ کس کے حق اور کس کے حلاف ہو رہا ہے ، اگر یہ سب کسی جماعت کے حلاف ہو تو ان تمام احتجاج، دھرنے، عدالتی فیصلے اور نیب کاروائیوں سے جمہوریت کو نقصان پہنچنے کے بیانات سامنے آئیں گے اور اگر یہی سب کچھ محالفین کے ساتھ ہو تو انہی سب کاروائیوں سے جمہوریت کی فتح کے چشمے پھوٹتے نظر آئیں گے۔


حالیہ دنوں میں جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کو وزیراعظم کا معاون خصوصی تعینات کیا گیا جس کے بعد اپوزیشن کے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا، اعتراضات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دور میں جنرل جنجوعہ کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنایا ، جنرل قادر بلوچ ، جنرل نصیر بابر کو سینیٹر بنایا۔


لیکن ان سب بیانات میں سب سے دلچسپ استعفیٰ کے بیانات ہیں۔ ٹرین حادثوں، کرپشن سکینڈل، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، مہنگائی اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر ن لیگ، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کوئی بھی جماعت اپوزیشن میں ہو تو حکومت سے استعفیٰ مانگتی ہے اور اگر حکومت میں ہو تو کان لپیٹے رکھتی ہے۔

پاکستان میں نظریات نہیں کرسیاں بولتی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی بیانات کئی دہائیوں سے ایک جیسے ہیں۔ کون کیا بیان دے گا اس کا فیصلہ نظریات نہیں بلکہ پارٹی کی موجودہ پوزیشن دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے