کالم

ججمنٹل معاشرہ اور انٹروورٹ

مئی 20, 2020 3 min

ججمنٹل معاشرہ اور انٹروورٹ

Reading Time: 3 minutes

راجہ اویس

جس معاشرے میں آپ کی کھڑی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر مارنے والا آپ کو یہ کہے کہ ’انا تے نی ہو گیا، تک کے گڈی چلا‘ مطلب تم اندھے تو نہیں ہو گئے، گاڑی دیکھ کر چلایا کرو، حالانکہ آپ کی گاڑی تو کھڑی ہے اور دیکھنا پیچھے والے کو چاہیے۔ اور آپ کو اپنی ساری تعلیم و تربیت ایک طرف رکھ کر چیخ کر گالیاں دے کر سامنے والے کو سمجھانا پڑے کہ غلطی اس کی ہے۔


جس معاشرے میں گھر میں ایک کمانے والا اور چھ بیٹھ کر کھانے والے ہوں اور کھانے والوں کا کام گپ بازی اور ہر آنے جانے والے پر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، آتے جاتے انگلی اٹھانا یا فیصلہ صادر کرنا ہو۔
جس معاشرے میں لطیفے اس قسم کے مشہور ہوں، ’نسرین نے پروین سے کہا کہ شمیم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
پروین نے جواب دیا، شمیم تو اچھی خاتون ہے، نسرین نے منہ بناتے ہوئے کہا چلو پھر اس کی کیا بات کرنی کسی اور کی بات کرتے ہیں۔‘


جس معاشرے میں سامنے مستری مزدور کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر بھی گزرتا ہوا شخص پوچھے، ’سناؤ بھئی کیا ہو رہا ہے؟‘
جس معاشرے میں عورت کی خاموشی کو رضامندی اور مرد کی خاموشی کو گناہ سمجھا جاتا ہو۔


جس معاشرے میں صبح شام دن رات ٹی وی پر کورونا کی صورتحال دیکھنے اور سننے کے بعد بھی بظاہر پڑھے لکھے لوگ آپ سے یہ کہیں کہ کورونا تو کچھ نہیں یہ صرف عمران خان کی چندہ مانگنے کے لیے ایک چال ہے۔
جس معاشرے میں خواندگی کا معیار یہ ہو کہ آپ اپنا نام لکھ سکتے ہوں اور اس کے باوجود ملک میں صرف 60 فیصد خواندہ ہوں۔


جس معاشرے میں تواہم پرستی کی کوئی حد نہ ہو۔
ایسے معاشرے میں اِنٹروورٹ ہونا اور اِنٹروورٹ رہ کر زندگی گزارنا بہت مشکل اور بعض اوقات انتہائی تکلیف دہ ہو سکتا ہے ۔

انٹروورٹ کسے کہتے ہیں؟

ماہرین نفسیات کے مطابق انٹروورٹ اکثر خاموش، الگ رہنے والے، اور سوچنے والے افراد سمجھے جاتے ہیں۔ وہ خصوصی توجہ یا معاشرتی میل جول کی تلاش نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ان سے انہیں تھکن محسوس ہوتی ہے۔

انٹروورٹس ایکسٹروورٹس کے مخالف ہیں۔ ایکسٹروورٹس کو اکثر ہلہ گلہ کرنے والی زندگی پسند ہوتی ہے۔ وہ بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ معاشرتی اجتماع سے دور رہنے والے نہیں ہیں ۔۔

ماہر نفسیات کارل گستاف یونگ وہ پہلا شخص تھا جس نے ان دونوں شخصیتوں کی انتہا کو 1960 کی دہائی میں بیان کیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ
’تھکنے کے بعد توانائی کو دوبارہ حاصل کرنے کے طریقہ کار کی بنیاد پر انٹروورٹس اور ایکسٹروورٹس کو الگ کیا جا سکتا ہے۔‘
انٹروورٹ تنہائی میں اپنی کھوئی ہوئی انرجی حاصل کرتے ہیں جبکہ ایکسٹوورٹ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے انرجی حاصل کرتے ہیں۔

تنہا گھر رہنے کا خیال انٹروورٹ کے لیے سنسنی خیز ہوتا ہے۔ تنہائی کے یہ ادوار انٹروورٹ کی صحت اور خوشی کے لیے بہت اہم ہیں۔ چاہے وہ محض آرام سے وقت گزار رہے ہوں یا کسی سرگرمی میں مشغول ہوں، تنہائی ان کے لیے خوش آئند راحت کا باعث ہے۔ انٹروورٹس اکثر پڑھنے ، باغبانی، دستکاری ، لکھنے ، گیمنگ ، فلمیں دیکھنے ، یا کسی اور سرگرمی کو جو صرف تنہا انجام دیئے جاتے ہیں ، سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔


انٹروورٹ کے لئیے سوشلائزیشن تھکاوٹ کا باعث ہے ، اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ وہ دوستوں سے ملنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ زیادہ وقت ملنے ملانے سے گریز کرتے ہیں۔

اس طرح کے لوگ اکثر تنہا کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تنہائی انٹروورٹس کو گہرائی سے توجہ مرکوز کرنے اور اعلی معیار کے نتائج پیدا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ انٹروورٹس دوسروں کے ساتھ مل کر اچھا کام نہیں کرتے ہیں۔ وہ گروپ کی ترتیب میں کام کرنے اور لوگوں سے باتیں کرنے سے زیادہ کام پر توجہ دینا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں تنہا کام کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔

انٹروورٹ دوسروں سے نسبتاً کم دوست بناتے ہیں جس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوست نہیں بنا سکتے بلکہ انٹروورٹ اچھے لوگوں کو زیادہ قریب رکھتے ہیں اور مضبوط تعلقات کو وقتی تعلقات پر ترجیح دیتے ہیں۔ انٹروورٹس کے اندر سوچنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس سے وہ خود احتسابی بھی کرتے ہیں۔

لیکن یقین مانیں پاکستان جیسے معاشرے میں اگر آپ انٹروورٹ رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ ہرگز آسان نہیں ہو گا کیونکہ ججمنٹل اور ویلے لوگ آپ کی خاموشی دیکھ کر آپ کو "سائیں”، "ملنگ”، "اللہ لوک”، "مغرور”، "بیوقوف” جیسے کئی القابات دینے کے بعد بھی تسلی نہ ہونے پر آپ سے دسیوں سوالات کریں گے۔
تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ؟
گھر میں سب ٹھیک ہے؟
بیوی سے جھگڑا تو نہیں ہوا؟
طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟
آج شکل پر بارہ کیوں بجے ہیں؟
آپ کے بار بار بتانے کے باوجود کہ سب کچھ ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں پھر بھی سوال کرنے والے جاتے جاتے آپ کو تسلیاں دے کر جائیں گے کہ
’اللہ پاک رحم فرمائے گا‘
’فکر مت کرو‘
’قسمت سے زیادہ اور وقت سے پہلے کچھ نہیں ملتا‘ وغیرہ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے