کالم

قرآن پر چند سائنسی اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

مئی 20, 2020 7 min

قرآن پر چند سائنسی اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

Reading Time: 7 minutes

عرفات فانی

اہل کلیسا اور مستشرقین کی طرف سے قرآن پر کئی غیرمعقول اعتراضات کیے گٸے ہیں۔ میں ان میں سے چند سائنسی اعتراضات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
اہل کلیسا جانتے ہیں کہ موجودہ سائنسی دور میں بائبل کو قبول کرنے کا امکان ایک فیصد بھی نہیں بچتا کیونکہ بائبل اور سائنس میں تطبیق مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے انہوں نے اب اپنی زندگیاں قرآن میں سائنسی غلطیاں نکالنے کیلئے وقف کردی ہیں۔


سورج کے غروب ہونے کاجگہ :
قرآن میں اللہ تعالیٰ سورة کہف میں ذوالقرنین کے بارے فرماتا ہے ’حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھاتغرب فی عین حمئة‘
ترجمہ: یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچے تو سورج کو ایک سیاہ چشمے میں ڈوبتے ہوئے محسوس کیا۔
اس آیت کریمہ کے نیچے اہل کلیسا نے لکھا ہے کہ یہ قرآن کا غلط بیان ہے کیونکہ دراصل سورج غروب نہیں ہوتا بلکہ یہ تو زمین کے محوری گردش کا نتیجہ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن زمین کو فلیٹ یعنی چپٹی قرار دیتا ہے اسی لیے تو کہا کہ سورج چشمے میں غروب ہوا۔ پھر اپنے دعوے کی توثیق کے لیے انھوں نے تفسیر طبری کا حوالہ بھی پیش کیا ہے کہ ’فقرا بعض قراء من المدینة والبصرة (فی عین حمئة بمعنی انھا تغرب فی عین ماء ذات حماة وقراته جماعة من قراء المدینة وعامة قراءالکوفہ‘ فی عین حامئة یعنی انھا تغرب فی عین ماء حارة۔‘
بصرہ کے قراء کی قرأت کے مطابق معنی اس طرح بنتا ہے کہ یہ گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے جبکہ کوفہ کے قراء کے مطابق اس کے معنی یہ ہے کہ سورج گرم پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں سورج کالے کیچڑ میں غروب ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ گرم چشمے میں غائب ہوتا ہے۔ یہ سب تو قرأت کی بحث ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سورج واقعی چشمے میں غروب ہوتا ہے۔ یہ قرآن ذوالقرنین کے مشاہدے کی خبر دیتا ہے کہ اس نے ایسا محسوس کیا۔

یہاں تفسیرجلالین نے لکھا ہے”وغروبھا فی العین فی رای العین والا فھی اعظم من الدنیا“ یعنی یہ ذوالقرنین نے ایسا محسوس کیا ورنہ سورج تو دنیا سے بہت بڑا ہے۔

عبدالماجد دریا بادی نے تفسیرماجدی میں لکھا ہے کہ تاریخ وجعرافیہ کی شہادت یہ ہے کہ سکندر کی ابتدائی فتوحات کے سمت یعنی سمت مغرب میں ایک بڑی جھیل آکریڈا کے نام سے جنوبی سرویا یعنی موجودہ یوگوسلاویا میں واقع ہے۔ مناستر سے کوئی پچاس میل جانب مغرب۔ ان کا پانی جس زمین اور چشموں سے آتا ہے وہ بڑے گندے یا سیاہی مائل ہے۔ یہاں تک کہ جو دریا اس جھیل سے نکلا ہے اس کا نام ہی دریائے سیاہ (Black river) ہے۔


فلیٹ زمین:
اہل کلیسا اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ زمین چپٹی ہے۔ دلیل میں مذکورہ آیت کے علاوہ دیگر حوالے بھی پیش کرتے ہیں۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے”الذی جعل لکم الارض فراشا والسماء بنإ“
“والارض فرشنھا فنعم الماھدون”
“والسماء بنینھا باید وانا لموسعون”
”والارض بعد ذلک دحھا“
ان آیت کریمہ میں اللہ فرماتا ہے کہ زمین انسان کے لیے بچھادی گئی ہے اور آسمان اس کے اوپر چھت ہے۔ عیسائی حضرات کہتے ہیں کہ زمین کے صفت فرش یعنی کہ یہ بچھا دی گئٰ ہے ایک ایسا بیان ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین چپٹی ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ یہاں اس سیاق کو جاننا چاہئے جس میں قرآن بات کرتا ہے۔

یونانیوں سے لے کر ھندوستانیوں تک سب نے زمین وآسمان کی پوجا کی ہے۔ اس لیے قرآن یہاں ان تخیلات اور اوہام کا خاتمہ کرتا ہے جن کے مطابق آسمان ایک بڑا دیوتا ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ اے انسان یہ زمین وآسمان آپ کے لیے خلق ہوئے ہیں نہ کہ آپ کا خلق اس کے لیے ہوا ہے۔اصل مقصود تو انسان ہے پھر یہ کس قدر حماقت ہے کہ انسان اپنے خادموں کے سامنے جھکنے لگے۔
صاحب تاج العروس لکھتا ہے”کل مااسفل فھو ارض“جو انسان کے قدموں کےنیچے ہو اسے زمین کہتے ہیں۔
”السماء کل ما علاک“ آسمان ہر اس چیز کو کہتےہیں جو آپ کے اوپر ہو۔
”کل ماعلا فاظل قیل لہ سماء“
ہر وہ چیز جو بلند ہو اور سایہ کرے اس کو آسمان کہتے ہیں۔
اب زمین کے فرش ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ چپٹی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ کروی ہے لیکن انسان کے لیے فرش کا کام دے رہی ہے۔ یعنی ہم زمین پر قدم رکھ سکتے ہیں، چل سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی کھردری چیز نہیں ہے جن پر بیٹھنایا چلنا ناممکن ہو۔
علامہ طنطاوی نے التفسیرالوسیط میں لکھا ہے”وتصویرالارض بصورة الفراش لاینافی کونھا کرویة لان الکرة اذا عظمت جدا کانت القطعة منھا کالسطح فی مکان الانتفاع بھا“
زمین کے وصف کرویت اور فراش میں منافات نہیں ہے کیونکہ کرة جب بہت زیادہ بڑا ہو تو اسکا ٹکڑا سطح معلوم ہوتا ہے کیونکہ لوگ اس سے سطح کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں یعنی اس پر چل سکتے ہیں اور بیٹھ سکتے ہیں۔
اسی طرح آسمان میں بھی اصل بلندی ہے۔ جس طرح زمین بطور فرش نیچے سے انسان کو سنبھالے ہوئے ہیں اسی طرح آسمان انسان کو اوپر سے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ اب لازمی بات ہے کہ اونچے اونچے پہاڑ، پرندوں کی بلند پرواز اوربڑے سے بڑے بلند سیارے جس چیز کے اندر سما جائیں اور باقی سب اشیاء اس سے پست ہی رہیں تو اگر پھر بھی چھت کا اطلاق اس پر نہ ہوگا تو اور کس چیز پر ہوگا؟


اس کے علاوہ مستشرقین نے ایک موضوعی اور من گھڑت روایت کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا ہیں جیساکہ یہ قرآن کے صریح نص سے ثابت ہو حالانکہ محققین علمائے اسلام کے نظروں میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ وہ روایت مفسرین نے سورة قلم میں ”ن“ کے تحت سیدنا ابن عباس سے نقل کیا ہے یعنی کہ وہ روایت تفسیروں میں موجود ہے لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ جو کچھ بھی مفسرین نے لکھا ہو ہم بغیر تحقیق کے آنکھیں بند کرکے اسے من وعن تسلیم کریں۔

اس روایت میں آتا ہے کہ ”ن“ ایک مچھلی ہے جس کے پشت پر زمین ہے۔
میں آپ کے سامنے چند تفاسیروں کے اقتباسات نقل کرتا ہوں۔ بعض مفسرین نے ”قیل“ سے اسے نقل کیا ہے کہ یہ بھی ایک قول ہے اور یہ بات واضح ہے کہ ”قیل“سے نقل کرنے والا قول تفرد یاضعیف ہوتا ہے۔
حافظ ابن کثیر تفسیرابن کثیر میں لکھتا ہے ”ن حوت عظیم“ نون ایک بڑا مچھلی ہے۔ ابن کثیر طبری کا حوالہ پیش کرتا ہے”ابن عباس قال:اول ما خلق اللہ القلم قال:اکتب، قال:وماذا اکتب؟قال:اکتب القدر،فجری بما یکون من ذلک الیوم الی قیام الساعة،ثم خلق النون،ورفع بخارالمإ،ففتقت منہ السمإ،وبسطت الارض،فاضطرب النون،فمادت الارض،فاثبتت بالجبال“۔


ابن عباس فرماتا ہے اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا پھر اس نے حکم دیا لکھو۔ قلم نے کہا کیا لکھوں؟ اللہ نے کہا تقدیر لکھو پس قلم نے لکھا جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔ پھر اس نے نون پیدا کیا پھر اس نے پانی کے بخارات اٹھا کر اس سے آسمان بناٸیں اور زمین کو نون کے پشت پر رکھ دیا۔نون نے حرکت کیا جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس اللہ نے اسے پہاڑوں سے مضبوط کیا۔


تفسیری طبری نے ”ن“ کے بارے لکھا ہے”ھوالحوت الارض الذی علیہ الارضون“ یہ وہ مچھلی ہے جس کے پشت پر زمینیں ہیں۔
تفسیری قرطبی نے لکھا ہے”الحوت الذی تحت الارض السابعة“ وہ مچھلی جو ساتویں زمین کے نیچے ہیں۔
امام فخرالدین رازی نے تفسیرکبیر میں لکھا ہے ”بالحوت الذی علی ظھرہ وھو فی بحر تحت الارض السفلی“ اس مچھلی کے ساتھ جس کے پشت پر زمین ہے اور یہ بحر میں ہے ارض سفلی کے نیچے۔


امام شوکانی لکھتے ہیں ”ھوالحوت الذی یحمل الارض“ وہ مچھلی ہے جو زمین کو لے جاتی ہے۔
اھل تشیع کے مایہ ناز مفسر الطوسی نے التبیان میں لکھا ہے”وقال ابن عباس فی روایة عنه ان الحوت الذی علیه الارضون“ بےشک یہ وہ مچھلی ہے جس کے پشت پر زمین ہے۔ یہ روایت ابن عباس سے نقل ہے۔


اب ہم اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔ مستشرقین نے لکھا ہے کہ قرآن اس طرح غیرمعقولی بیانات سے بھرا پڑاہے کیونکہ سائنس کے مطابق زمین کے نیچے کوئی مچھلی وغیرہ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین کے نیچے نہیں کہنا چاہٸے بلکہ اندر کا لفظ استعمال کرنا چاہٸے کیونکہ زمین کرہ ہے جس کے نیچے خلا ہے۔ ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غیرمعقولی بیان ہے لیکن یہ ان لوگوں کی منافقت ہے کہ وہ اس روایت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس کے نام سے تفسیر موضوعی روایات سے بھری پڑی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابن عباس کے نام پر لوگ اپنے روایات بیچتے تھے۔ البتہ سیدنا ابن عباس کے صحیح اسناد بھی ہیں جس پر ان سے صحیح روایات نقل ہیں۔مفتی تقی عثمانی نے علوم القرآن،شیخ علی الصابونی نے التبیان فی علوم القرآن،امام زرقانی نے مناہل العرفان اور امام سیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن میں ابن عباس کے متنازعہ فیہ اور صحیح اسناد پر خوب بحث کیا ہے۔

قرآن میں اس قسم کے مچھلی وغیرہ کے بارے ایک حرف بھی نہیں ہے بلکہ ہر اک مفسر نے لکھا ہے کہ ”ن“ حروف مقطعات میں سے ہے جن کے معانی اللہ تعالی کو معلوم ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے ”وما یعلم تاویله الااللہ“ اس کی تفسیر صرف اللہ کو معلوم ہے۔


آپ کے بچے اگر ترجمہ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ ان سے کہہ ”الم، حم ن“ یا دوسرے حروف مقطعات کا ترجمہ کرے وہ کہیں گے کہ ان کے معانی کا علم صرف اللہ کو ہے تو پھر کیوں اس کو اتنا غلط رنگ دیا جاتا ہے۔
مستشرقین کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اس روایت کو رد کرنے کا کوئ جواز نہیں ہے کیونکہ سیدنا محمدﷺ نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ ابن عباس کو قرآن کا صحیح علم عطاء فرمائیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ روایت موقوف ہے یعنی اس کی سند پیغمبراسلامﷺ تک نہیں پہنچتی تو اس پر مستشرقین نے کہا کہ جب اللہ نے براہ راست اس کو خود قرآن سکھایا ہے تو پھر مُحَمَّد ﷺ تک سند پہنچانا ابن عباس کیلئے کیا معنی رکھتا ہے؟
ہم کہتے ہیں یہ موقوف نہیں بلکہ موضوعی ہے یعنی سیدنا ابن عباس پر افتراء ہے۔


تفسیر فتح المنان نے اس روایت کو تفصیل سےنقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس مچھلی کے بارے عجائب وغرائب روایات مذکور ہیں۔ یہ روایات ابن المنذر وعبدبن حمیدوابن مردویہ نے کی ہیں اور مجاھد وسدی ومقاتل ومرہ ہمدانی وعطاء خراسانی کلبی وغیرہ سےبھی منقول ہیں۔ یہ روایات محققین محدثین کےنزدیک بےاصل ہیں اس لٸے انھوں نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں لکھنا برا سمجھا۔فن موضوعات میں ائمہ جرح وتعدیل نے اس بات کا فیصلہ کردیا ہے۔


علامہ طنطاوی نے التفسیرالوسیط میں لکھا ہے
”وقد ذکر بعض المفسرین اقوالا اخری،لایعتمد علیھا لضعفھا ومن ذلک قولھم ان ”نون“ اسم لحوت عظیم“اس ضمن میں بعض مفسرین نے دوسرے اقوال بھی نقل کئے جو ضعف کے باعث قابل اعتماد نہیں ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ نون ایک بڑی مچھلی کا نام ہے۔
اس قسم کے مچھلی اور اژدھا کا تصور یہودیوں کی کتابوں میں موجود ہے۔
ان کی کتابوں میں آیا ہے کہ اس دن آقا اپنے تلوار سے سزا دے گا،اسکا غضبناک،عظیم اور طاقتور تلوار لیویاتھان اک بےرحم اژدھا جو آبی جانوروں کو قتل کرے گا۔


Leviathan ایک اژدھے کا تصور اس میں ملتا ہے۔ اصل متن یہ ہے:
In that day,the Lord will punish with his sword-his fierce,great and powerful sword-Leviathan the gliding serpent, Leviathan the coiling serpent;he will slay the monster of the sea.Isiah 27:1

اس طرح ایک اور عبارت ہے کہ پانچویں دن اس نے پانی سے لیویاتھان نکالا جو اڑنے والا اژدھا ہے اور نیچے پانی میں رہتا ہے۔ اصل متن یہ ہے:
On the fifth day He brought forth from the water the Leviathan,the flying serpent,and it is dwelling in the lowest waters; and between its fins rests the middle bar of the earth.
Pirke De-Rabbi Eliezer Ch 9.

مسلمانوں میں اس طرح کی روایات زیادہ سیدنا کعب احبار سے نقل ہیں کیونکہ وہ یہودیوں کا بڑا عالم تھا۔ مذکورہ نون والی روایت کا منبع بھی سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے