کالم

انڈیا پر لفظی گولہ باری، عربوں کو کیا ہوا؟

جون 1, 2020 4 min

انڈیا پر لفظی گولہ باری، عربوں کو کیا ہوا؟

Reading Time: 4 minutes

زین زبیر طاہر 

ہندوستان کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے مذہب سے ماورا رہے ہیں، ان تعلقات کی بنیاد ہمیشہ سے معاشی مفادات پر رہی ہے، عرب ممالک تیل کی دولت کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں جبکہ ہندوستان اپنی زیادہ آبادی اور اس آبادی میں موجود مڈل کلاس کی بڑی تعداد کی وجہ سے ساری دنیا کے لیے پر کشش مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے، ساتھ ہی ہندوستان میں ہنر مند افراد کی بہتات ہے اور دنیا کو ہندوستان سے سستی لیبر اور کہیں میسر نہیں۔

ہندوستان اور عرب ممالک کے معا شی مفادات کا جائزہ لیا جائے تو  معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی عرب ممالک کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم تقریباً سو ارب ڈالر سے زائد ہے ۔

متحدہ عرب امارات اور ہندوستان میں دوطرفہ تجارت پچاس ارب ڈالر سے زیادہ ہے ، جس سے ہندوستان متحدہ عرب امارات کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنتاہے ۔

خلیجی عرب ریاستوں میں نوے لاکھ سے زائد ہندوستانی تارکین وطن ہیں جو اس خطے کی معیشت کو چلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ان تارکین وطن میں ڈاکٹر ، انجینئر ، اساتذہ ، ڈرائیور ، تعمیراتی کارکن اور دیگر مزدور شامل ہیں۔

ان تارکین وطن سے ہندوستان کو سالانہ تقریباً پچاس ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
ہندوستان کی وزارت برائے امور خارجہ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سرمایہ کاری 55 ارب ڈالر ہے اور دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں ہندوستانی سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار ہیں۔

دوسری جانب ، سعودی عرب میں 2.7 ملین ہندوستانی آباد ہیں اور ہندوستانی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ، عراق کے بعد ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا تیل سپلائی کرنے والا ملک ہے۔ گذشتہ سال دو طرفہ تجارت میں ہندوستان نے سعودی عرب سے تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر کا تیل خریدا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہندوستان میں سو ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔
عرب ممالک کے ہندوستان سے معاشی مفادات اتنے گہرے ہیں کہ آج تک کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عرب حکمرانوں نے کبھی کوئی واضح دو ٹوک موقف اختیار کرنے سے گریز کیا۔

کشمیر میں حالیہ لاک ڈاؤن کے بعد بگڑتی صورتحال پر سعودی عرب نے پائے جانے والے بحران پر صرف تشویش کا اظہار کیا۔ دوسرے خلیجی ممالک – کویت ، قطر ، بحرین اور عمان نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے بظاہر ہندوستان کا ساتھ دیا۔
کشمیر پر لاک ڈاؤن کے آغاز میں ہی بحرین سے یہ اطلاع بھی ملی کہ جنوبی ایشین باشندوں نے کشمیر کی حمایت میں اور بھارت کے خلاف احتجاج کے بعد متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

عربوں کو ہوا کیا؟

بیان کیے گئے تمام باہمی مفادات کے ہوتے ہوئے اور ماضی میں عربوں کے ہندوستان کی سے تعلقات سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو کچھ دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عرب ممالک کے اہم لوگوں کی طرف سے ہندوستان کی محالفت دیکھ کر بہت سے لوگوں کو حیرت ضرور ہوئی۔

ہندوستان میں کورونا کا زمہ دار تبلیغی جماعت کو ٹھہرائے جانے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جس کی باز گشت عرب ممالک تک جا پہنچی۔

چند ہفتے قبل دبئی میں اعلیٰ عہدے پر فائز پریتی گری نے ایک ٹویٹ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں کہا ‘یہ کون لوگ ہیں اور ان کا مشن کیا ہے؟ کیا یہ پورے انڈیا میں جراثیمی جہاد پھیلانے کی سازش ہے؟ اگر یہ خود کو حکام کے حوالے نہیں کرتے تو ملک کو بچانے کے لیے انھیں ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کر دینا ہی واحد راستہ ہے۔‘

پریتی نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ ’تبلیغی سنی، دیوبندی دہشت گرد ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ بالی ووڈ سٹار عامر خان بھی تبلیغی سنی دیوبندی ہیں۔ اس کے باوجود ہندو ان کی فلمیں دیکھنے جائیں گے۔‘
ان کی اس ٹویٹ کا متحدہ عرب امارت میں نوٹس لیا گیا اور کسی نے اس کے جواب میں اسے دبئی پولیس کو ٹیگ کر دیا۔ پریتی نے اس ٹویٹ کے بعد اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے لیکن اس وقت تک ان کے خلاف کارروائی کی بات ہونے لگی تھی۔

سوربھ اپادھیائے (ایک پولیٹِکل کیمپین مینیجر ہیں اور وہ دبئی میں مقیم ہیں) نے ایک ٹویٹ کیا جس کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر بھی ہو رہا ہے۔ اس میں لکھا ہے ‘مشرق وسطیٰ کے ممالک جو کچھ بھی ہیں وہ ہم انڈینز کی وجہ سے ہیں جس میں اسی فیصد ہندو شامل ہیں۔ ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے دبئی جیسے شہر کو کھڑا کیا ہے۔ اور اس بات کی عزت یہاں کا شاہی خاندان بھی کرتا ہے۔’

شارجہ کے حکمراں شاہی خاندان کی شہزادی ہند القسیمی نے سوربھ اپادھیائے کو متنبہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’حکمران شاہی خاندان انڈیا سے بہت قریب ہے۔۔۔ لیکن آپ کا یہ برتاؤ قابل قبول نہیں۔ یہاں سبھی کو ان کے کام کا پیسہ ملتا ہے۔ کوئی مفت میں کام نہیں کرتا۔
’آپ اس سرزمین سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور آپ اسی کی تضحیک کر رہے ہیں۔ آپ کی تضحیک کا جواب دیا جائے گا۔‘

بنگلور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ کا عرب خواتین کے بارے میں 2015 کا ایک نسل پرستانہ اور جنسی طور پر ہتک امیز ٹویٹ زیر بحث آگیا۔
سوریہ نے یہ ٹویث اگرچہ ڈیلیٹ کر دیا لیکن تب تک عرب ممالک کے کئی اہم کارکنوں نے اس کا سکرین شاٹ لے لیا تھا۔ کویت کے سرکردہ اور معروف سماجی کارکن عبدالرحمن النصار نے وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘ایک انڈین رکن پارلیمان عرب خواتین کی توہین کر رہا ہے۔ ہم عرب باشندے ان کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

صرف یہی نہیں ان کے علاؤہ اہم عہدوں پر فائز عربوں نے حالیہ دنوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف رویے پر سوال اٹھائے ہیں ان اہم عہدیداروں میں سعودی سکالرز عبیدی رہرانی، جمال بحرین، اور دیگر او آئی سی کی اہم شخصیات شامل ہیں۔

پاکستان چونکہ مسلم امہ کی یکجیہتی میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اس لیے پاکستانی سوشل میڈیا پر عربوں کی لفظی گولہ باری سے کافی متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن واضح رہے کہ دنیا مفادات پر چلتی ہے جذبات پر نہیں، عربوں کی ہندوستان کے خلاف لفظی گولہ باری چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ کچھ نہیں ، لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی معاشی مفادات غیرت اور وقتی غصے پر حاوی ہو جائیں گے اور عرب انتہا پسند ہندوؤں سے ایک بار پھر شیر و شکر ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے