کالم

جنوبی پنجاب کے گینگ اور ہمارے بچے

نومبر 14, 2022 2 min

جنوبی پنجاب کے گینگ اور ہمارے بچے

Reading Time: 2 minutes

ایک دوست کا کہنا تھا کہ لادی گینگ کے حوالے سے حکومتِ وقت کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔مجھے اس کی یہ بات مضحکہ خیز لگی تو خاموش ہو گیا۔ چائے کی چسکی لی۔ پھر میں نے کہا کیا اپوزیشن قصور وار ہے؟اس نے کہا نہیں۔ اپوزیشن بھی قصوروار نہیں ہے۔ میں سوچنے لگا پھر کون اس کا ذمہ دار ہے؟

میرے دوست نے مجھ سے پوچھا کیا اس طرح کے واقعات پہلی مرتبہ ہوئے؟میں نے نفی میں سر ہلایا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کیا تمہیں پتہ ہے ان کے سرپرست کون ہیں ؟ میں نے کہا جی مجھے کیا چھوٹے بچوں کو بھی پتہ ہے۔

(ہم رستوران سے باہر نکلے موسم خوش گوار تھا ہم دونوں روڈ کے کنارے واک کرتے ہوئے کار پارکنگ کی طرف چل پڑے)

میرے دوست کا کہنا تھا جنوبی پنجاب کا ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے اگر یہ حل ہو گیا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔میں نے حیرت سے پوچھا صرف ایک؟ اس نے کہا ہاں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہو اس کا کہنا تھا جنوبی پنجاب میں جتنے بھی گینگ ہیں چاہے وہ لادی گینگ ہو، چھوٹو گینگ ہو یا پھر اکرم حجانہ گینگ ہو، ان کے سر پرست عوام کے منتخب نمائندے ہیں یا پھر ان کے خاندان کے افراد اسمبلیوں کے ممبران ہیں۔ میں نے کہا ایسا ہی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس کا کہنا تھا جب یہ لوگ الیکشن لڑتے ہیں ان کا مقابلہ اپنے ہی خاندان کے کیسی فرد سے ہوتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت جیت جس کی بھی ہو عہدہ اپنے ہی گھر میں آتا ہیں اس طرح یہ لوگ وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہیں اس وجہ سے اپوزیشن کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

میرے دوست نے مجھ سے سوال پوچھا تمہیں پتا ہے ان کو منتخب کون کرتا ہے ؟ میں نے کہا جی ہم عوام۔دوست نے کہا بلکل ہم عوام۔ہم ہی اس کے قصوروار ہیں ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں جس دن عوام میں شعور آیا اس دن ان سب بیماریوں کا آخری دن ہوگا پھر عوامی مسائل بھی حل ہوں گے، کام بھی ہوں گے اور ترقی بھی ہوگی ۔
نہیں تو! (میں اس کی بات کافی توجہ سے سن رہا تھا) میں نے پوچھا نہیں تو؟ وہ ہنستے ہوئے اپنی کار کی جانب بڑھا اور کہا نہیں تو ہمارے بچے بھی انہی مسائل پر گفتگو کر رہے ہوں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے